اسلام آبادہائیکورٹ نے 408 قیدیوں کی مشروط ضمانت منظورکرلی،عدالت نے کہاہے کہ قیدیوں کی جانب سے کمیٹی کو مطمئن کرنا ضروری ہو گا،اگرکمیٹی مطمئن نہ ہوتو قیدی رہا نہیں ہو سکیں گے۔
میڈیارپورٹس کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ میں اڈیالہ جیل قیدیو ں کی ضمانت پر رہائی سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی،چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں بنچ نے سماعت کی۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ دنیا میں جیلوں سے لوگوں کو رہا کیا جا رہا ہے کیونکہ وائرس پھیلنے کا خطرہ ہے،اسلام آباد پولیس کو قیدیوں کی رہائی پر کیا مسئلہ ہے؟۔
ایڈووکیٹ جنر نے کہا کہ منشیات کیسز کے ملزمان کے رہا ہونے پر بھی معاشرے کو خطرہ ہوتا ہے،چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ بحرانی صورتحال ہے،یہ عدالت مشروط ضمانتیں منظور کر لیتی ہے،ضمانت کے بعد کمیٹی جائزہ لے گی کہ کن قیدیوں کو رہا کرنا ہے اور کن کو نہیں۔
چیف جسٹس ہائیکورٹ نے کہا کہ عدالت پابند کر دیتی ہے کہ ملزمان فرار نہ ہو سکیں،اس صورتحال میں خواتین کو غیر ضروری طورپرجیل میں نہیں رکھا جا سکتا،
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ عدالت سہولت فراہم کر رہی ہے، پھراگرکمیٹی مطمئن ہو تو پھر رہا کیا جائے، ڈی سی اور ڈی آئی جی صاحب نے اس بحرانی صورتحال میں اچھا کام کیا،پرتشدد نوعیت کے مقدمات کے علاوہ دیگر کو قیدیوں کوضمانت پر رہا کیوں نہ کر دیا جائے، ڈی سی نے کہا کہ 307قیدیوں کو آج رہا کر رہے ہیں، ان کی روبکاریں آج جاری ہو جائیں گی۔
عدالت نے انتظامیہ، پولیس اور اے این ایف کے ایک ایک نمائندہ پر مشتمل کمیٹی تشکیل دے دی،عدالت نے کہا کہ چیف کمشنر، آئی جی اسلام آباد اور ڈی جی اے این ایف اپنا اپنا نمائندہ مقرر کریں۔
اسلام آبا دہائیکورٹ نے408 قیدیوں کی مشروط ضمانت منظورکرلی،عدالت نے کہاکہ قیدیوں کی جانب سے کمیٹی کو مطمئن کرنا ضروری ہو گا،اگر کمیٹی مطمئن نہ ہو تو قیدی رہا نہیں ہو سکیں گے۔