کرونا وائرس ایمرجنسی کے باعث اسلام آباد ہائیکورٹ نے نیب میگا کرپشن اسکینڈلز کے انتہائی اہم 24 ملزمان کی ضمانت منظورکرلی۔ عدالت نے قرار دیا کہ اس وقت غیر معمولی حالات ہیں، غیر معمولی فیصلے کرناہوں گے۔
دو مرتبہ موقع دینے کے باوجود پراسیکیوٹر جنرل نیب عدالت میں پیش نہیں ہوئے، ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نے جعلی بنک اکائونٹس کیس، کارکے رینٹل پاور کرپشن کیس اور مضاربہ اسکینڈل کیسز میں گرفتار ملزمان کی ضمانت کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ قیدیوں کا کرونا وائرس ٹیسٹ کرایا جائے اور صرف متاثرہ ملزمان کو ہی رہا کیاجائے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ آپ انڈر ٹرائل ملزمان کو جیل میں قید کیوں رکھنا چاہتے ہیں ؟ انڈر ٹرائل ملزمان جرم ثابت ہونے پر سزا ملنے تک بے گناہ تصور ہوتے ہیں، آپ اچھی پراسیکیوشن کے بعد ملزمان کو زیادہ سے زیادہ سزا دلوائیں، ان جرائم میں زیادہ سے زیادہ سزا 14 سال قید ہے، سزائے موت نہیں، بدقسمتی سے حکومت اپنا کام نہیں کر رہی اور ان کا کام بھی عدالتوں کو کرنا پڑ رہا ہے۔
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ٹیسٹ پازیٹو آنے تک باقی قیدیوں میں بھی وبا پھیل گئی تو ذمے دار کون ہو گا ؟ آپ کو معلوم ہے کہ جیل کی ایک بیرک میں کتنے قیدیوں کو رکھا جاتا ہے ؟ تفتیشی افسرکواڈیالہ جیل کی بیرک میں تفتیش کرنے کے احکامات جاری کر دیتے ہیں۔
دلائل کے بعد عدالت نے کورونا وائرس کے خدشے کے پیش نظر جعلی اکائونٹس کیس کے مرکزی ملزم حسین لوائی، طحہ ٰرضا، مصطفی ذوالقرنین مجید، خواجہ محمد سلیمان، فیصل ندیم، امان اللہ، ڈاکٹر ڈنشاہ اور نعمان قریشی سمیت دیگر ملزمان کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دے دیا۔