کورونا ازخودنوٹس کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے استفسار کیا حاجی کیمپ قرنطینہ مرکز پر کتنا پیسہ خرچ ہوا ؟ ممبر این ڈی ایم اے نے کہا حاجی کیمپ قرنطینہ پر59 ملین خرچ ہوئے، قرنطینہ مراکز پر اتنا پیسہ کیسے لگ گیا ؟ کیا قرنطینہ مراکز کیلیے نئی عمارتیں بنائی جا رہی ہیں؟ اتنی رقم کے بعد بھی 600 لوگ جاں بحق ہوگئے، کوششوں کا کیا فائدہ ؟ ممبر این ڈی ایم اے نے کہاکہ حکومت کی طرف سے صرف 2.5 ارب روپے ملے۔
چیف جسٹس نے استفسار کورونا کے ایک مریض پر اوسطً کتنے پیسے خرچ ہوتے ہیں ؟ 500 ارب مریضوں پر خرچ ہوں تو ہر مریض کروڑ پتی ہو جائے گا، یہ سارا پیسہ کہاں جا رہا ہے ؟ کیا 25 ارب سے آپ کثیرالمنزلہ عمارتیں بنا رہے ہیں ؟ نمائندہ این ڈی ایم اے نے کہا کہ پوری رقم نہیں ملی، اس میں دیگر اخراجات بھی شامل ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ کوروناکا علاج صرف کمرے میں بندکرناہے،کیا کمرے میں بندہونے پر 25 لاکھ خرچ ہوتے ہیں؟،پیسہ وہاں خرچ ہورہا ہے جہاں لگانظربھی نہیں آرہا۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ عوام حکومت کی غلام نہیں،عوام پر حکومت آئین کے مطابق کرنی ہوتی ہے، پاکستان میں غربت بہت ہے لوگ روزانہ کما کر ہی کھانا کھا سکتے ہیں، کراچی پورٹ پر اربوں روپے کا سامان پڑا ہے جو باہر نہیں آ رہا، لگتا ہے کراچی پورٹ پر پڑا سامان سمندر میں پھینکنا پڑے گا، کیا کسی کو معلوم ہے 2 ماہ بعد کتنی بے روزگاری ہوگی؟۔
چیف جستس نے کہاکہ بند ہونے والی صنعتیں دوبارہ چل نہیں سکیں گی، کیا کروڑوں لوگوں کو روکنے کیلیے گولیاں ماری جائیں گی؟ سنا ہے ہولی فیملی ہسپتال سے لوگوں کو نجی ہسپتال منتقل کیا جا رہا ہے۔ سیکریٹری صحت پنجاب نے کہا کہ اگر مریض منتقل ہو رہے تو یہ ڈاکٹرز کا مس کنڈکٹ ہے۔ عدالت نے سماعت کل تک ملتوی کردی۔