جسٹس قاضی فائزعیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس کے کے آغا کے خلاف صدارتی ریفرنس سے متعلق درخواستوں کی سماعت کے دوران 10 رکنی بینچ کے رکن جسٹس مقبول باقر نے وفاق کے وکیل اور سابق وزیرِ قانون فروغ نسیم کو مخاطب کرکے کہا کہ انھیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ماضی میں ایک جمہوری حکومت کواعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی جاسوسی کرنے پر ختم کیا جا چکا ہے۔
واضح رہے کہ سابق وزیر اعظم بےنظیر بھٹو کے دوسرے دورِ حکومت کو جب ختم کیا گیا تھا تو دیگر الزامات کے ساتھ یہ الزام بھی تھا کہ اُنھوں نے اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی جاسوسی کی تھی۔یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ اس وقت کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے چیمبر سے جاسوسی کے آلات برآمد ہوئے تھے۔
صدارتی ریفرنس سے متعلق درخواستوں کی سماعت کے دوران بینچ کے سربراہ جسٹس عمرعطا بندیال کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں بدنیتی کا نکتہ بھی نہایت اہم ہے اور وفاق کے وکیل نے اب تک نہیں بتایا کہ ججوں کی بیرون ممالک جائیدادوں کے بارے میں شواہد کیسے اکھٹے کیے گئے۔
بیرسٹر فروع نسیم دلائل دینے کے لیے روسٹم پر آئے تو بینچ کے سربراہ نے وفاق کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ عدالت اُن کے دلائل تفصیل سے سنے گی۔لیکن اب تک کے دلائل میں اس ریفرنس کے بارے میں زیادہ تفصیلات نہیں بتائیں جس پر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ وہ اس بارے میں عدالت کو مطمئن کرنے کی کوشش کریں گے۔
وفاق کے وکیل کا کہنا تھا کہ بنیادی سوال ہے کہ کیا جج پر قانونی قدغن تھی کہ وہ اہلیہ اور بچوں کی جائیداد ظاہر کرتے جبکہ درخواست گزاریعنی قاضی فائز عیسی کا موقف ہے کہ ان کی اہلیہ اور بچے ان کے زیر کفالت نہیں ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ معاملہ ٹیکس کا یا کسی اور جرم کا نہیں بلکہ جج کے مس کنڈّکٹ کا ہے اورآئین کے آرٹیکل 209 میں کسی بھی جج کے خلاف کارروائی کے بارے میں بڑا تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے۔ بیرسٹر فروع نسیم کا کہنا تھا کہ جج کے خلاف کارروائی صرف اسی صورت ہوگی جب جج مِس کنڈکٹ کا مرتکب پایا جائے گا۔
جسٹس منیب اخترنے وفاق کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مِس کنڈکٹ کی تعریف دیگر قوانین کے بجائے بہتر ہو گا کہ آئین کے تحت ہی دیکھی جائے جس پر وفاق کے وکیل کا کہنا تھا کہ آئین میں زیر کفالت اہلیہ اور خود کفیل اہلیہ کی تعریف موجود نہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ بچوں کے لیے تو پھر بھی زیر کفالت یا خود کفیل کا ایشو ہے، اہلیہ کے لیے ایسا کچھ نہیں۔
جسٹس مقبول باقر نے وفاق کے وکیل سے استفسار کیا کہ اس جائیداد کے بارے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ یا ان کی اہلیہ سے کسی نے نہیں پوچھا جس پر فروع نسیم کا کہنا تھا کہ جج سے سوال کرنے کا حق صرف سپریم جوڈیشل کونسل کو ہے اور سپریم جوڈیشل کونسل نے اسی حق کے تحت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے جائیدادوں کے بارے میں پوچھا ہے۔
جسٹس مقبول باقر نے وفاق کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اُنھیں حقیقت میں یہ ثابت کرنا ہے کہ اہلیہ کی جائیداد ظاہر نہ کر کے جج نے قانونی تقاضا پورا نہیں کیا۔
فروع نسیم نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پانامہ کیس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف نے یہی کہا تھا کہ بچوں کی جائیداد کا مجھ سے مت پوچھیں اور اس مقدمے میں بھی تینوں جائیدادوں کا آج تک نہیں بتایا گیا۔
اُنھوں نے کہا کہ کسی بھی ایمنسٹی سکیم قانون سے جج، ان کی بیگمات یا ان کے زیر کفالت بچے فائدہ نہیں لے سکتے۔ فروغ نسیم نے کہا کہ پاکستان میں تین ایسے قوانین ہیں جس کے تحت ججوں اور ان کی بیگمات کے لیے اثاثے ظاہر کرنا ضروری ہیں۔
بینچ کے سربراہ نے وفاق کے وکیل کو مخاطب کرتے ہویے کہا کہ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ دیگر شہریوں کو ٹیکس ایمنسٹی اسکیم میں چھوٹ حاصل ہے لیکن ججوں اور ان کے اہل خانہ کو ٹیکس ایمنسٹی سکیم میں چھوٹ حاصل نہیں۔
بینچ کے سربراہ نے وفاق کے وکیل سے استفسار کیا کہ ان کی اس دلیل کا اس ریفرنس سے کیا تعلق ہے۔
وفاق کے وکیل نے اس بارے میں تو کوئی جواب نہ دیا تاہم ان کا کہنا تھا کہ اعلیٰ عدلیہ کے کسی بھی جج سے سپریم جوڈیشل کونسل کا فورم سوال کر سکتا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ اگر ہم آج یہ مان لیتے ہیں کہ جج سے ان کی اہلیہ یا زیر کفالت بچوں کے اثاثوں کے بارے میں نہیں پوچھا جاسکتا تو یہ بڑی تباہی ہوگی۔
وفاق کے وکیل کا کہنا تھا کہ درخواست گزار جج کے بیرون ملک اثاثے تسلیم شدہ ہیں اور معزز جج کے اہل خانہ کے بیرون ملک اثاثوں کی کوئی مورگیج بھی نہیں ۔
بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر ایک خودمختار بیگم اپنی آمدن سے جائیداد خریدتی ہے تو وہ کل اس کی وضاحت بھی دے سکتی ہے۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ آپ سے کوئی نہیں کہتا کہ نہ پوچھیں، کیا آپ نے ان کی بیگم سے پوچھا کہ جائیداد یا فلیٹ کہاں سے لائیں؟
فروغ نسیم نے جواب دیا کہ ڈسپلنری ایکشن میں بیگم سے نہیں پبلک آفس ہولڈر سے پوچھا جاتا ہے، جس پر جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ نیب قانون میں بھی جس کے نام پراپرٹی ہوتی ہے اس کو ظاہر کیا جاتا ہے، اگر اصل سورس نہ ملے تو پھر دیگر سے پوچھا جاتا ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اگر خود مختار بیگم اپنی آمدن سے جائیداد خریدتی ہے تو وہ اس کی وضاحت بھی دے سکتی ہے جب کہ جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ سوال یہ ہے کیا بیگم سے پوچھا گیا کہ جائیداد کہاں سے خریدی گئی؟
فروغ نسیم نے کہا کہ گریڈ 22 کے سیکریٹری کے لیے بنائے گئے قواعد ججز پر بھی لاگو ہیں، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ججز کو ملنے والے مراعات، قواعد اس کیس سے کیسے متعلقہ ہیں؟
جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ریفرنس میں بنیادی ایشو ٹیکس قانون کی شق 116 کی خلاف ورزی ہے۔ وفاق کے وکیل کا کہنا تھا کہ ان کا عدالت سے وعدہ ہے کہ شق 116 پر بھی بھرپور دلائل دیے جائیں گے۔
بینچ کے سربراہ نے فروغ نسیم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آج آپ کو مکمل وقت دیا گیا لیکن آپ ایک نکتے پر بھی دلائل مکمل نہ کر سکے جس پر وفاق کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ وہ اگلے دو روز میں اپنے دلائل مکمل کر لیں گے جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ بدنیتی کا نقظہ نہایت اہم ہے، آپ نے اب تک نہیں بتایا کہ شواہد کیسے اکھٹے کیے۔