پائلٹس کی لائسنس کی تحقیقات میں حویلیاں طیارے حادثے میں جاں بحق دونوں پائلٹس کے لائسنس مشکوک قرار دیے گئے۔
سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے ایوی ایشن کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس چیئرمین مصطفی نواز کھوکھرکی زیر صدارت ہوا جس میں سول ایوی ایشن، پالپا اور پی آئی اے حکام نے شرکت کی۔
سیکریٹری سول ایوی ایشن نے پائلٹس کے مشکوک لائسنس کے معاملے پر کمیٹی کو بریفنگ دی اور بتایا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر پائلٹس کی ڈگریوں کی چھان بین کی گئی، جعلی لائسنس سے متعلق فارنزک آڈٹ مکمل کرلیا گیا، تحقیقات کےدوران پائلٹس کو ذاتی حیثیت میں بھی طلب کیا گیا۔
اجلاس میں حویلیاں طیارے حادثے میں جاں بحق دونوں پائلٹس کے لائسنس بھی جعلی ہونے کا انکشاف ہوا۔ پالپا نمائندوں نے کمیٹی کو بتایا کہ پائلٹس لائسنس کی فرانزک تحقیقات میں حویلیاں حادثے میں شہید ہونے والے دونوں پائلٹس کے لائسنس مشکوک قرار دیے گئے۔
کیپٹن وقاص نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ حویلیاں لائسنس میں شہید پائلٹس کے ناموں کی فہرست میں موجودگی افسوس ناک ہے، تحقیقاتی رپورٹ سے قبل اس طرح ان کا نام شامل کرنامناسب نہیں، حویلیاں طیارہ حادثہ تکنیکی نوعیت کا تھا۔
کیپٹن وقاص کا کہنا تھا کہ تحقیقات میں 141 پائلٹس کے لائسنسز کو جعلی قرار دے دیا گیا، ان میں سے جن 15 پائلٹس کے لائسنس کو جعلی قراردیا گیا وہ کب کے ریٹائر ہو چکے ہیں، جبکہ 20 پائلٹس کبھی پی آئی اے کا حصہ رہے ہی نہیں، 25 لوگوں کوغلط معلومات کے مطابق گراؤنڈ کردیا گیا،45 پائلٹس وہ تھے جن کے لائسنس کو امتحان کی تاریخ سے متعلق غلط فہمی کی بنیاد پر جعلی قرار دیا گیا۔
تحقیقات میں پائلٹس کا موقف نہ سننے پرکمیٹی نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حیران کن بات ہے کہ پائلٹس کو سنا تک نہیں گیا۔
کمیٹی نے پائلٹس کے مشکوک لائسنس سے متعلق تحقیقاتی رپورٹ طلب کیں تو ڈی جی سول ایوی ایشن نے تحقیقاتی رپورٹ کمیٹی کو پیش کرنے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ پائلٹس لائسنس کی تحقیقاتی رپورٹ تاحال کسی سطح پر پیش نہیں کی گئی۔
چیئرمین کمیٹی نے پوچھا کہ لائسنس سے متعلق تحقیقاتی رپورٹ پبلک کیوں نہیں کی جا رہی؟ جس پر سیکریٹری ایوی ایشن نے کہا کہ تحقیقاتی رپورٹ پبلک کرنے سے سوشل میڈیا پر نیا تنازع کھڑا ہوجاتا ہے۔
یاد رہے کہ دسمبر 2016 میں پی آئی اے کا طیارہ چترال سے اسلام آباد جاتے ہوئے حویلیاں کے قریب گر کر تباہ ہوگیا تھا جس میں جنید جمشید سمیت سوار تمام 48 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔