سانحہ ماڈل ٹاؤن متاثرین کی طرف سے بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیے۔فائل فوٹو
سانحہ ماڈل ٹاؤن متاثرین کی طرف سے بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیے۔فائل فوٹو

امہات المومنین کیخلاف ہرزہ سرائی پر کسی کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔لاہورہائیکورٹ

سوشل میڈیا پر توہین آمیز مواد کی روک تھام کی درخواست پر چیف جسٹس لاہورہائیکورٹ جسٹس قاسم خان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ اس ملک کے کسی بڑے کی ماں بہن پر بات ہو تو وہ برداشت نہیں کرتا، یہاں امت کی ماﺅں اور صحابہ سے متعلق بات ہوئی ،کیا حمیت ختم ہو گئی ہے ، ہم اپنی ماﺅں ،بیٹیوں کیخلاف تو کوئی بات نہیں سن سکتے ،امہات المومنین کیخلاف ہرزہ سرائی ہو تو کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی،یہاں کسی سیاست دان کیخلاف بات ہو تو پوری پارٹی میدان میں آجاتی ہے ۔

لاہورہائیکورٹ میں سوشل میڈیا پر توہین آمیز مواد کی روک تھام کی درخواست پر سماعت ہوئی،ڈی جی ایف آئی اے واجد ضیا عدالت میں پیش ہوئے،چیف جسٹس قاسم خان نے کہاکہ ایک جرم ہوا، تصدیق کی، انکوائری ہوئی، جرم ثابت ہوا تو مقدمہ درج کیوں نہیں ہوا؟،کس چیز نے کارروائی سے روکے رکھا؟۔

چیف جسٹس لاہورہائیکورٹ نے کہاکہ اس ملک کے کسی بڑے کی ماں بہن پر بات ہو تو وہ برداشت نہیں کرتا، یہاں امت کی ماﺅں اور صحابہ سے متعلق بات ہوئی ،کیا حمیت ختم ہو گئی ہے ،کچھ عرصہ سے یہ بات ہورہی ہے مذہبی منافرت کا لٹریچر پھیلایاجارہا ہے، یہ آگ بڑھی تو بہت کچھ جل جائے گا، ڈی جی ایف آئی اے نے کہاکہ ہم اس معاملے پر سخت کارروائی کررہے ہیں ،چیف جسٹس قاسم خان نے کہاکہ کل تک توکوئی کارروائی نہیں کی تھی ،اس سال 13 کیس درج ہوئے،9 میں گرفتاریاں ہوئیں ۔

عدالت نے استفسار کیا کہ فیس بک، انسٹا گرام ملک کی ترقی کیلیے اتنے ضروری ہیں ؟،کیا اس کی وجہ سے پی ایچ ڈی کی ڈگری نہیں ملے گی؟، عدالت نے کہاکہ ہم اپنی ماﺅں ،بیٹیوں کیخلاف تو کوئی بات نہیں سن سکتے ،امہات المومنین کیخلاف ہرزہ سرائی ہو تو کسی کے کان پر جوں نہیں رینگتی، یہاں کسی سیاست دان کیخلاف بات ہو تو پوری پارٹی میدان میں آجاتی ہے۔

چیف جسٹس قاسم خان نے کہاکہ میں نے چیئرمین پی ٹی اے کوبلایا تھا ،سرکاری وکیل نے کہاکہ وہ گلگت بلتستان میں اجلاس میں شریک ہیں ،عدالت نے کہاکہ آئین اور قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی جارہی ہے،بتائیں جوآئین اورقانون کی خلاف ورزی کرے اس کیخلاف کیا اقدام ہونا چاہیے ؟،کیا آپ اس ملک سے ملی حمیت نکالنا چاہتے ہیں ۔

چیف جسٹس نے وفاقی حکومت کے وکیل سے استفسارکیا کیا کابینہ میں کبھی اس پر بات ہوئی ؟،سرکاری وکیل اشتیاق اے خان نے کہاکہ کابینہ میں نہیں لیکن پی ٹی اے میں اس پر بات ہوتی ہے ،چیف جسٹس نے کہاکہ کسی کی ماں بہن پر پروگرام ہو تووہ بندہوجاتا ہے، صاحب اقتدار پارلیمنٹ میں بیٹھے لوگ غیر آئینی اقدام پر خاموش ہیں ،اب تک رولز نہیں بنے، اپنی ضرورت ہوتو فوراً آرڈیننس آجاتا ہے۔وکیل وفاقی حکومت نے کہاکہ ہم نے 90 ہزار سائٹس بند کیں ۔

درخواست گزار نے تجویز دیتے ہوئے کہاکہ 3ہفتے کیلئے فیس بک بند کردیں ،اشتیاق اے خان وکیل وفاقی حکومت نے کہاکہ بند کردیں مجھے کوئی اعتراض نہیں ۔چیف جسٹس نے کہاکہ کیا آپ یہ سرکار کے وکیل کی حیثیت سے کہہ رہے ہیں ،اشتیاق اے خان نے کہاکہ یہ میں ذاتی حیثیت میں کہہ رہاہوں،چیف جسٹس نے کیاکہ آپ ذاتی حیثیت میں بات نہیں کر سکتے ۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل اشتیاق خان نے کہاکہ میں اس کو ایک دن بھی برداشت کرنے کو تیار نہیں ،مجھے وقت دیاجائے تاکہ آپ کو مکمل حل پیش کر سکوں ۔

چیف جسٹس نے کہاکہ دیکھنا ہوگا کہ کس کی وجہ سے یہ کام بڑھا،ان کے پاس مانیٹرنگ سسٹم نہیں ،شکایت پر کاررروائی کرتے ہیں ،عدالت نے تفصیلی جواب کیلیے حکومت کو 2 ہفتوں کا وقت دیدیااورچیئرمین پی ٹی اے 15 اکتوبر کو آئندہ سماعت پر طلب کرلیا۔