سپریم کورٹ نے مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کا نام ای سی ایل میں شامل کرنے کے لیے نیب کی اپیل خارج کردی ۔
جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں شہباز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے سے متعلق لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف نیب کی درخواست پر سماعت کی۔
نیب پراسیکیوٹر جہانزیب بھروانہ نے اپنے دلائل اور عدالتی استفسار پر کہا کہ شہباز شریف مشکوک ٹرانزیکشنز کی وجہ سے کرپشن کے مرتکب ہوئے، نیب بھی اینٹی منی لانڈرنگ قانون کے تحت کی بااختیار ہے، کئی ملزمان انکوائری سطح پر فرار ہو جاتے ہیں، شہباز شریف ریفرنس کے چھ ملزمان مفرور ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر شہباز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالا گیا تھا لیکن اب کیس میں کافی پیش رفت ہوچکی ہے۔
جسٹس منیب اختر نے سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ ہائی کورٹ احکامات کے وقت شہباز شریف پر سفری پابندی غیر ضروری تھی، جسٹس فائز عیسی کیس میں عدالت اینٹی منی لانڈرنگ قوانین کی تشریح کر چکی، مشکوک ٹرانزیکشنزکرپشن کے زمرے میں نہیں آتیں، نیب نے جسٹس فائزعیسی کیس کا فیصلہ پڑھنے کی زحمت بھی نہیں کی۔
سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے کہ شہباز شریف جیل میں ہیں تو نام ای سی ایل میں ڈالنے سے کیا ہوگا؟ معلوم ہے کہ احتساب عدالت کے پاس دائرہ اختیار ہے لیکن نیب نے انکوائری کے دوران ہی شہباز شریف کا نام ای سی ایل میں شامل کردیا،ای سی ایل سے نام نکلنے کے بعد کیا شہباز شریف فرار ہوئے؟ شہباز شریف ایسے شخص تو ہیں نہیں جنہیں کوئی جانتا نہ ہو اور فرار ہوگئے ہوں۔
سپریم کورٹ نے نیب کی اپیل خارج کرتے ہوئے کہا کہ نیب پراسیکیوٹرہائی کورٹ فیصلے میں سقم کی نشاندہی نہیں کرسکے۔