فیض آباد پر تحریک لبیک پاکستان کا دھرنا جاری ہے جس کی وجہ سے جڑواں شہروں میں موبائل فون سروس تاحال بند ہے جبکہ سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی ہونے سے بھی شہریوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔
تحریک لبیک کے ڈنڈا بردار کارکنوں نے فیض آباد کے قریبی ہوٹلوں اور فیض آباد پل کے نیچے رات گزاری اور رات بھر پولیس اور مظاہرین کے درمیان آنکھ مچولی کا سلسلہ جاری رہا۔
مشتعل مظاہرین اسلام آباد میں داخل ہونے کی کوشش کرتے رہے جبکہ پولیس کی جانب سے تحریک لبیک کے کارکنوں کو روکنے کے لیے شیلنگ کی گئی۔
جڑواں شہروں میں گزشتہ روز بند ہونے والی میٹرو بس اور موبائل فون سروس تاحال بحال نہ ہوسکی جب کہ فیض آباد کی صورتحال کے بعد راولپنڈی اندرون شہر کنٹینرز اور رکاوٹیں بدستور موجود ہیں جن کے باعث ائیر پورٹ اور ریلوے اسٹیشن جانے والے مسافروں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
سرکاری و نجی ملازمین اور خواتین کو دفاتر پہنچنے کے لیے کئی کئی کلومیٹر پیدل چلنا پڑرہا ہے۔
مظاہرین کا کہنا ہے کہ جب تک پاکستان میں تعینات فرانس کے سفیر کو واپس نہیں بھیجا جاتا، وہ دھرنا ختم نہیں کریں گے۔
جماعت کے سربراہ خادم رضوی نہ تو ریلی میں شریک ہوئے اور نہ ہی ابھی تک وہ دھرنے کے مقام پر پہنچے ہیں۔ تحریک لبیک کے ترجمان قاری زبیرکا کہنا ہے کہ اگرچہ تحریک لبیک کے امیر خادم حسین رضوی ابھی اس دھرنے میں موجود نہیں ہیں لیکن ان کی ہدایات واضح ہیں کہ جب تک ان کا مطالبہ پورا نہیں ہوتا اس وقت تک وہ اپنا احتجاج ختم نہیں کریں گے۔
اُنھوں نے کہا کہ ابھی تک کوئی بھی حکومتی نمائندہ ان سے مذاکرات کے لیے نہیں آیا۔
واضع رہے گزشتہ روز ریلی اور دھرنے کے دوران پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں جن میں درجنوں افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ زخمیوں میں ٹی ایل پی کے کارکن اور پولیس اہلکار دونوں شامل ہیں۔
مقامی پولیس کا دعویٰ ہے کہ ریلی میں شریک مظاہرین نے نہ صرف مری روڑ پر واقع دکانوں میں توڑ پھوڑ کی بلکہ وہاں پر موجود پولیس اہلکاروں پر پتھراؤ بھی کیا تھا۔ راولپنڈی پولیس نے 200 سے زیادہ مظاہرین کو گرفتار کرنے کا دعویٰ بھی کیا ہے۔