کراچی میں منشیات فروشی کا دھندا ایک بار پھرعروج پر جا پہنچا۔فائل فوٹو
کراچی میں منشیات فروشی کا دھندا ایک بار پھرعروج پر جا پہنچا۔فائل فوٹو

کالجز میں منشیات فروشی کیلیے لڑکے لڑکیوں کا نیٹ ورک قائم

کراچی میں منشیات فروشی کا دھندا ایک بار پھرعروج پر جا پہنچا اورکچی و مضافاتی آبادیوں سے نکل کرتعلیمی درسگاہوں تک پھیل گیا، اس وقت کراچی میں موجود زیادہ تراعلیٰ تعلیمی اداروں کے باہرعلاقہ پولیس کی سرپرستی میں منشیات فروخت کی جارہی ہے، جس میں منشیات فروشوں نے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو اپنا آلہ کار بنا رکھا ہے۔

کراچی میں 7بڑے گروپ منشیات فروشی کا دھندا کر رہے ہیں جس سے یومیہ کروڑوں روپے کالا دھن کمایا جاتا ہے، جس میں پولیس، سیاسی جماعتوں اور دیگر کئی اداروں کو بھی ان کا حصہ پہنچایا جاتا ہے، پولیس خانہ پری کے لیے ان گروپوں کے کارندوں کو گرفتار بھی کرتی ہے مگر دھندا جاری و ساری ہے، جس میں گزشتہ کچھ ماہ کے دوران تیزی دیکھنے میں آ رہی ہے۔

ذرائع کے مطابق اس وقت کراچی میں منشیات کا گھناؤنا کاروبار کچی آبادیوں کی تنگ و تاریک گلیوں سے نکل کر کالجزاور درسگاہوں تک پہنچ گیا ہے اور 50 فیصد درسگاہیں منشیات فروش گروپوں کے زیر تسلط ہیں، جنہوں نے ان مقامات پر اپنی منشیات فروخت کرانے کے لیے کئی نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو آلہ کاربنا رکھا ہے، جن میں سے زیادہ تر کارندے ان درسگاہوں میں زیر تعلیم بھی ہیں اور تعلیمی سرگرمیوں کی آڑ میں درسگاہوں میں چوری چھپے منشیات فروخت کرتے ہیں۔

اس بارے میں پولیس اور اسپیشل برانچ کو مکمل علم ہے مگر بھاری نذرانوں کے لالچ میں یہ دونوں ادارے اپنی آنکھیں بند کئے بیٹھے ہیں اور ملک کا مستقبل داؤ پر لگ گیا ہے، جو 7 بڑے گروپ منگھوپیر، لیاقت آباد، پی آئی بی، ابراہیم حیدری، کورنگی،پاک کالونی، اورنگی ٹاؤن، محمود آباد، قصبہ کالونی، نیو کراچی، شاہ لطیف، بن قاسم، بھینس کالونی، شرافی گوٹھ، ڈیفنس اور کلفٹن میں واقع درسگاہوں میں منشیات کا کاروبار کر رہے ہیں۔

ان میں سب سے بڑا گروپ درویش نامی منشیات فروش کا ہے جس کا گروپ پی آئی بی کے علاقے پرانی سبزی منڈی سے اپنا کاروبار چلاتا ہے، اس کے بعد دوسرا گروپ ساجد اور ماجد نامی منشیات فروشوں کا ہے، پھر ریاست کا گروپ بھی کراچی کی کئی درسگاہوں میں منشیات فروخت کرنے میں آگے آگے ہے۔

چوتھا گروپ لال زادہ کا ہے جو منگھو پیر چادر فیکٹری سے اپنا گروپ آپریٹ کر رہا ہے، پانچواں گروپ ارشد پٹھان کا ہے جس کا گروپ قصبہ کالونی سے آپریٹ کیا جاتا ہے، چھٹا گروپ نیازی پٹھان کا اورساتواں گروپ بھابھی نامی منشیات فروش خاتون کا ہے جو کراچی کی مختلف درسگاہوں میں منشیات فروخت کررہی ہے، یہ گروپ منشیات فروشی سے یومیہ کروڑوں کا کالا دھن کما رہے ہیں، جس میں سے کراچی پولیس اور اسپیشل برانچ سمیت کئی مختلف اداروں کو بھی ان کا حصہ دیا جاتا ہے اورکراچی میں موجود کئی سیاسی جماعتوں کو بھی اپنا منہ بند رکھنے کے عوض بھاری رقوم ہر ماہ ان منشیات فروشوں کی جانب سے پہنچائی جاتی ہیں جنہیں یہ پارٹی فنڈ کا نام دیتے ہیں۔

جن درسگاہوں میں منشیات کا مذموم کاروبار ہو رہا ہے وہاں آئس،کرسٹال، چرس، گردا، شراب، اور ہیروئن فروخت کی جارہی ہے جسے اب نوجوان نسل کے وہ لڑکے اور لڑکیاں استعمال کر رہے ہیں جو کھاتے پیتے گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں اور نشہ استعمال کرنے کو فیشن گردانتے ہیں، پولیس خانہ پری کے لیے ان گروپوں کے چھوٹے کارندوں کو گرفتار بھی کرتی ہے مگر اس سے منشیات فروش گروپوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔

اگر پولیس سمیت تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیا تو پھر درسگاہوں سے انجینئر یا ڈاکٹر نہیں بلکہ نشئی باہر نکلیں گے۔