حکومتی ٹیم کی سربراہی وفاقی وزیر مذہبی امور نورالحق قادری نے کی، مذاکرات میں وزیر داخلہ اعجاز شاہ، مشیر داخلہ شہزاد اکبر، کمشنر اسلام آباد عامر احمد، سیکرٹری داخلہ بھی مذاکراتی ٹیم میں شامل تھے
حکومتی ٹیم کی سربراہی وفاقی وزیر مذہبی امور نورالحق قادری نے کی، مذاکرات میں وزیر داخلہ اعجاز شاہ، مشیر داخلہ شہزاد اکبر، کمشنر اسلام آباد عامر احمد، سیکرٹری داخلہ بھی مذاکراتی ٹیم میں شامل تھے

حکومت اور فیض آباد میں دھرنا دینے والی جماعت کے قائدین کے مذاکرات کامیاب

حکومت اور فیض آباد میں دھرنا دینے والی جماعت کے قائدین کے مذاکرات کامیاب ہوگئے جس کے بعد سربراہ تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) خادم حسین رضوی کچھ دیر میں دھرنا ختم کرنے کا اعلان کریں گے۔
ذرائع کے مطابق حکومتی ٹیم کی سربراہی وفاقی وزیر مذہبی امور نورالحق قادری نے کی، مذاکرات میں وزیر داخلہ اعجاز شاہ، مشیر داخلہ شہزاد اکبر ، کمشنر اسلام آباد عامر احمد،سیکرٹری داخلہ بھی مذاکراتی ٹیم میں شامل تھے۔
قبل ازیں وفاقی حکومت نے گستاخانہ خاکوں کیخلاف فیض آباد میں دھرنا دینے والی دینی و سیاسی جماعت تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) سے مذاکرات کا فیصلہ کیا تھا۔
وزیراعظم نے وفاقی وزیر مذہبی امور پیر نورالحق قادری کو فوری طور پر طلب کرکے انہیں فیض آباد پر دھرنا دینے والوں سے مذاکرات کی ہدایت کی تھی۔
فیض آباد پر تحریک لبیک کا دھرنا جاری، جڑواں شہروں میں موبائل سروس تاحال بند
خیال رہے کہ فرانس میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کیخلاف فیض آباد پر تحریک لبیک پاکستان کا دھرنا جاری ہے جس کی وجہ سے جڑواں شہروں میں موبائل فون سروس تاحال بند ہے جب کہ سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی ہونے سے بھی شہریوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔
تحریک لبیک کے ڈنڈا بردار کارکنوں نے فیض آباد کے قریبی ہوٹلوں اور فیض آباد پل کے نیچے رات گزاری اور رات بھر پولیس اور مظاہرین کے درمیان آنکھ مچولی کا سلسلہ جاری رہا۔
مشتعل مظاہرین اسلام آباد میں داخل ہونے کی کوشش کرتے رہے جب کہ پولیس کی جانب سے تحریک لبیک کے کارکنوں کو روکنے کے لیے شیلنگ کی گئی۔
جڑواں شہروں میں گزشتہ روز بند ہونے والی میٹرو بس اور موبائل فون سروس تاحال بحال نا ہوسکی جب کہ فیض آباد کی صورتحال کے بعد راولپنڈی اندرون شہر کنٹینرز اور رکاوٹیں بدستور موجود ہیں جن کے باعث ائیر پورٹ اور ریلوے اسٹیشن جانے والے مسافروں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
سرکاری و نجی ملازمین اور خواتین کو دفاتر پہنچنے کے لیے کئی کئی کلومیٹر پیدل چلنا پڑرہا ہے۔