محکمہ خوراک کے افسران آٹا چکیوں کے لیے مختص گندم کوٹے کو اپنےگھپلے چھپانے کے لیے بھی استعمال کر رہے ہیں۔فائل فوٹو
محکمہ خوراک کے افسران آٹا چکیوں کے لیے مختص گندم کوٹے کو اپنےگھپلے چھپانے کے لیے بھی استعمال کر رہے ہیں۔فائل فوٹو

آٹا چکیوں کیلیے مختص گندم کوٹہ کمائی کا ذریعہ بن گیا۔مافیاکے مزے

کراچی (رپورٹ: ارشاد کھوکھر) صوبائی محکمہ خوراک کے بیشتر ڈسٹرکٹ فوڈ کنٹرولرز (ڈی ایف سیز) نے گندم کے گھپلے چھپانے اور منافع خوری کرنے کیلیے آٹا چکیوں کے لیے مختص گندم میں سے ماہانہ لاکھوں بوری کے چالان خود جمع کرا کے خورد برد کا سلسلہ بڑھا دیا ہے۔

گھیراؤ تنگ ہونے کے بعد محکمہ خوراک کی کمیشن و خورد برد مافیا نے پیکیج والے افسران سے براہ راست کمیشن وصول کرنے کی پالیسی ترک کرکے اس کام کی ذمے داری محکمہ کے ایک ایڈیشنل ڈائریکٹراورایک مافیا کا بھتہ وصول کرنے والے پرانے کارندے پر چھوڑ دی ہے۔

اس ضمن میں باخبر ذرائع کا کہنا ہے صوبائی محکمہ خوراک میں نومبر کے مہینے کے لیے صوبے بھر کی فلور ملوں اور آٹا چکیوں کے لیے جو تقریباً 25 لاکھ بوری سرکاری گندم مختص کی ہے اس میں سے تقریباً 4 لاکھ 28 ہزار 500 بوری گندم صرف آٹا چکیوں کیلیے مختص کی ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ بعض اضلاع کے ڈی ایف سیز نے اس معاملے میں سختی کی ہوئی ہے۔ جو غیر فعال اور بند آٹا چکیوں کو سرکاری گندم جاری نہیں کر رہے جبکہ بیشتر اضلاع کے ڈی ایف سیز نے آٹا چکیوں کے لیے مختص گندم کے کوٹا کو کمائی کا بڑا ذریعہ بنا لیا ہے۔

متعلقہ اضلاع میں جو چکیاں رجسٹرڈ ہیں ان میں سے بعض اضلاع میں ایک تہائی اور بعض اضلاع میں 50 فیصد سے زائد چکیاں بند ہیں یا صرف دکھاوے کی ہیں۔ محکمہ خوراک کے ڈی ایف سیز اُن بند چکیوں کے نام پر بھی سرکاری گندم کے اجرا کے چالان بنا کر ان کے نام پر خود رعایتی نرخوں والی گندم گوداموں سے اٹھا کر اوپن مارکیٹ میں بیچ رہے ہیں۔

واضح رہے کہ حکومت سندھ نے فی 100 کلو گرام سرکاری گندم کی قیمت اجرا 3 ہزار 687 روپے 50 پیسے مقرر کی ہے۔ جبکہ اوپن مارکیٹ میں فی 100 کلو گرام دیسی گندم کی بوری کے نرخ 5 ہزار 200 روپے سے 5 ہزار 500 روپے تک ہیں۔ اس طرح سرکاری گندم کی جعلسازی کی آڑ میں افسران خود منافع خوری کر رہے ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ بے نظیر آباد ریجن سے یہ شکایت بھی موصول ہوئی ہے کہ وہاں جن ایک تہائی چکیوں کو سرکاری گندم جاری کی جا رہی ہے انہیں بھی اپنے اصل کوٹا کے مقابلے میں 50 سے 65 فیصد کم گندم جاری کرکے افسران خود گھپلے کر رہے ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں کئی چکی مالکان ایسے ہیں جو خود بھی چور ہیں، جو کم گندم ملنے پر بھی شور نہیں مچاتے۔ تاہم وہ چکی مالکان جن کی چکیاں فنکشنل ہیں انہیں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں کراچی میں سب سے زیادہ شکایات ضلع وسطیٰ اور ضلع غربی سے ہیں۔ جبکہ یہ اور بات ہے کہ جن چکیوں کو سرکاری گندم جاری ہو رہی ہے وہ بھی کم نرخوں پر آٹا سپلائی نہیں کر رہیں۔

ذرائع کے مطابق بعض اضلاع میں محکمہ خوراک کے افسران آٹا چکیوں کے لیے مختص گندم کے کوٹہ اپنےگھپلے چھپانے کے لیے بھی استعمال کر رہے ہیں، انہوں نے گوداموں سے جو سرکاری گندم چوری کرکے مہنگے داموں بیچ کھائی ہے اس کا ریکارڈ برابر کرنے کے لیے گوداموں سے گندم اٹھائے بغیر ملی بھگت سے خوردبرد کردہ کی گئی گندم کی رقم رعایتی نرخوں پر سرکاری اکاونٹ میں جمع کرارہے ہیں۔

علاوہ ازیں ذرائع کا کہنا ہے کہ نئے سیکریٹری کے آنے کے بعد محکمہ کے حالات میں تبدیلی آنا شروع ہوگئی ہے۔ جس کے بعد صوبائی محکمہ خوراک کی کمیشن و خورد برد مافیا کے سرغنہ خیام اور صوبائی وزیر کے بھتیجے سندیپ کی کرپشن کا اعلیٰ سطح پر سخت نوٹس لینے کے باعث ان پر واضح کیا گیا ہے کہ اب بہت ہوچکا، وہ اپنی لوٹ مار کا سلسلہ بند کریں اور محکمہ کے امور سے دور رہیں۔

اس صورتحال میں مافیا نے بھی اپنی پالیسی تبدیل کرکے محکمہ کے وہ افسران جو مافیا سے پیکیج طے کرکے تعینات ہوئے ہیں ان سے حساب کتاب کی وصولی کیلیے مافیا نے محکمہ کے ایک ایڈیشنل ڈائریکٹر کو آگے کیا ہے۔ جبکہ مافیا کا پرانا کارندہ غلام نبی راجپوت بھی بند ملوں کو کوٹا دلوانے اور کمیشن خوری کے دیگر امور میں پہلے سے زیادہ سرگرم ہوگیا ہے۔ اس صورتحال میں کمیشن مافیا کے کارندوں میں بے چینی پھیل ہوئی ہے اور مافیا اس صورتحال میں نیا راستہ نکالنے کیلیے سرگرم ہے۔

مافیا کا کہنا ہے کہ ضلع ٹنڈو الہ یار میں چکیوں کے کوٹا کے معاملات محکمہ کے ایک ملازم یاسر عالم ضلع حیدرآباد میں نعمان قریشی کے پاس ہیں۔ اس طرح دیگر اضلاع میں بھی مافیا نے اپنا نیٹ ورک پھیلا رکھا ہے۔