امت رپورٹ
پاکستان کی پیاز برآمد کرکے ایران اورافغانستان سے پیاز درآمد کرنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ یہ انکشاف پاکستان اونین سپلائرز ایسوسی ایشن کے سیکریٹری جنرل عمیر ہارون نے کیا۔
’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سندھ میں پیازکی بمپر فصل نہیں ہوئی کہ اس سال فصلوں پر ٹڈی دل کا حملہ رہا ہے۔ جبکہ شائع ہونے والی خبروں میں پیازکی فی من قیمت بھی غلط بتائی گئی ہے۔ یہ قیمت 1200 روپے سے1300 روپے بتائی گئی ہے۔ جبکہ اصل قیمت 2800 روپے من ہے۔ ان کے بقول پھلوں اور سبزیوں کی درآمد اوربرآمد کی ایسوسی ایشن اور سندھ حکومت چاہتی ہے کہ پیازکی برآمد کی اجازت دی جائے۔
سندھ حکومت نے وفاق سے پیازکی بیرون ملک برآمد پرعائد پابندی ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وفاق پیازکی برآمد پر پابندی ختم کرے اور درآمد پرعارضی پابندی لگائے۔
صوبائی وزیر زراعت محمد اسماعیل راہو نے اس حوالے سے کہا کہ سب سے زیادہ پیاز کی پیداوار سندھ میں ہے۔ کیونکہ سندھ میں 56 ہزار ہیکٹر پر پیاز کاشت کی گئی ہے۔ اس سال صوبے میں 7 لاکھ 60 ہزار ٹن پیاز کی پیداوار متوقع ہے۔ جبکہ صوبے کی کھپت 5 لاکھ 63 ہزار ٹن ہے۔ اس اعتبار سے ایک لاکھ 97 ہزار ٹن پیاز کھپت سے زائد پیدا ہوگی۔
اسماعیل راہو نے کہا کہ رواں سیزن میں ملک بھر میں 21 لاکھ 12 ہزار 894 ٹن پیاز کی پیداوار متوقع ہے۔ وفاق کی غلط پالیسیوں کے باعث ملکی زرعی معیشت تباہی کے دہانے پر ہے۔ وفاق ہمشیہ الٹے کام کرتا ہے۔ جب ایکسپورٹ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تو امپورٹ کرتا ہے اور جب درآمد کرنے کی ضرورت تھی تو تماشا دیکھتا ہے۔
وزیر زراعت نے کہا کہ وفاق ایران اور افغانستان سے پیاز منگوا رہا ہے اور ایکسپورٹ سے پابندی نہیں ہٹارہا۔ پیاز امپورٹ ہونے کی وجہ سے ملکی کاشت کاروں کو بھاری نقصان پہنچ رہا ہے۔ آلو ایکسپورٹ ہورہا ہے تو پیاز پر پابندی کیوں عائد ہے؟
واضح رہے کہ سندھ میں ٹڈی دل نے پیاز کی فصلوں کو بھی نقصان پہنچایا تھا۔ گزشتہ دنوں سندھ آبادگار اتحاد ٹنڈوالہ یار کے رہنمائوں نے بھی قومی شاہراہ پر پیاز کے دام کم ہونے پر پیاز کی بوریاں روڈ پر رکھ کر احتجاجی مظاہرہ کیا تھا۔ مظاہرین نے ’پیاز کے دام کو بڑھائو، کسان کو تباہ ہونے سے بچائو‘ کے نعرے بلند کئے۔ مظاہرے کی وجہ سے روڈ پر گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ گئیں۔ جس سے مسافروں کو شدید مشکلات کا سامناکرنا پڑا۔
اس موقع پر مقررین نے کہا کہ سندھ میں پیاز مارکیٹ میں آنے سے قبل ہی ایکسپورٹ کی پابندیاں سمجھ سے باہر ہے۔ آخر کیوں پابندی لگائی گئی ہے۔ ساڑھے 8 لاکھ تک فروخت ہونے والی پیاز کی گاڑی ڈھائی لاکھ کی کم قیمت تک جا پہنچی۔ ایکسپورٹ بند ہونے کے بعد ٹنڈوالہ یار، میرپورخاص، نواب شاہ، مٹیاری، سانگھڑ، ٹنڈومحمد خان سمیت دیگر اضلاع میں تیار پیاز کی فصل کے کاشتکار پریشانی میں مبتلا ہو گئے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ وفاقی حکومت کی غلط پالیسی کے باعث 3200 روپے میں فی من فروخت ہونے والی پیاز 2000 تک فروخت ہو رہی ہے۔ وفاق کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے پیاز کی ایکسپورٹ پر پابندی لگ گئی ہے۔ سندھ کے کاشتکاروں کے ساتھ ناروا سلوک کیا جا رہا ہے۔ ایران اور افغانستان سے بڑی تعداد میں پیاز امپورٹ ہو رہی ہے۔ جو سندھ کی مختلف منڈیوں میں پہنچ رہی ہے۔ جس سے سندھ کے کاشتکاروں کا کروڑوں کا نقصان ہو رہا ہے۔
کاشتکاروں کا کہنا تھا کہ اگر پیاز کی امپورٹ بند نہ کی گئی اور ایکسپورٹ نہ کھولی گئی تو ہم کاشتکار روڈ پر پیاز بچھاکر سراپا احتجاج ہوں گے۔ خیال رہے کہ فوڈ سیکورٹی کے حوالے سے موجودہ حکومت کی کوئی ٹھوس پالیسی نہیں۔ ملک کو کتنی خوراک کی ضرورت ہے اور اس حوالے سے کتنی پیداوار ہونی چاہیے۔ اس بارے میں صوبائی حکومتوںکے ساتھ مشاورت نہیںکی گئی ہے۔ جس کی وجہ سے ہر صوبہ اپنی اپنی حکمت عملی بناتا ہے اور خوراک کی قومی حکمت عملی نہیں بن پاتی۔
ذرائع کا کہنا ہے وزیر اعظم کے ایک قریبی ساتھی اور معاون خصوصی کی خواہش پر ایران سے پیاز اور ٹماٹر منگوائے جارہے ہیں۔ ترجمان وزارت نیشنل فوڈ سیکورٹی نے بتایا کہ ٹماٹر اور پیازکی قیمتیں زیادہ ہونے کے باعث حکومت نے ایران سے درآمد کا فیصلہ کیا ہے اور اس سلسلے میں ایران سے ٹماٹر اور پیاز درآمدکرنے کی اجازت بھی دے دی ہے۔ ایران سے ٹماٹر اور پیاز درآمد کرنے کی ایک ماہ کے لیے اجازت دی گئی ہے اور یہ اقدام قیمتوں میں کمی لانے کیلیے کیا گیا ہے۔
ترجمان کے مطابق نجی شعبے کو پیاز اور ٹماٹر کی درآمد کے پرمٹ جاری کردیئے گئے ہیں۔ ٹماٹر اور پیازکی قیمتوں میں استحکام نہ آنے کی صورت میں درآمدی اجازت میں توسیع کی جاسکتی ہے۔ درآمد کنندگان ایک ماہ کے لیے جتنی چاہیں پیاز اور ٹماٹر درآمد کرسکتے ہیں۔ یہ کیسی شرط ہے کہ جس کے نتیجے میں پاکستان کے کسان کو نقصان پہنچانے کی کھلی اجازت دی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے پاکستانی کسان احتجاج کر رہے ہیں۔