اسلام آباد میں نئے سیکٹرزکی تعمیر سے بے گھرہونے والے شہریوں سے متعلق کیس میں چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ ریاست جب کرپٹ ہو جائے تو اسے بلیک میل بھی کیاجاتا ہے،کس کی ورنہ ہمت ہے کہ ریاست کو بلیک میل کرے،نیب سے پلی بارگین کرنے والے بھی بعد میں سرکاری پلاٹس لے جاتے رہے ۔
اسلام آباد میں نئے سیکٹرز کی تعمیر سے بے گھرہونے والے شہریوں سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی،چیف جسٹس اطہر من اللہ نے حکومت اور سی ڈی اے پر ایک بار پھر شدید برہمی کا اظہارکیا،عدالت نے کہاکہ ریاست پر دباوَ نہیں ہوتا، کس نے کہا ہے کہ ریاست پر پریشر ڈالا جا سکتا ہے۔
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہاکہ ریاست جب کرپٹ ہو جائے تو اس پر پریشر ڈالا جا سکتا ہے ،کس کی ورنہ جرات ہے کہ ریاست پر پریشر ڈالے،بااثر لوگوں نے معاوضے بھی لے لیے،کیوں عام شہریوں کو معاوضہ ملا نہ متبادل پلاٹس ؟۔
عدالت نے کہاکہ نیب سے پلی بارگین کرنے والے کرپٹ بھی بعد میں سرکاری پلاٹس لے جاتے رہے، چیف جسٹس ہائیکورٹ نے کہاکہ عدالت نے دیکھا کہ اسلام آباد میں تو ریاست نام کی چیز سِرے سے ہی نہیں 1400اسکوائر میل اسلام آباد میں صرف اشرافیہ کا قبضہ ہے، عدالت نے کہاکہ اسلام آباد کے منتخب نمائندوں کو شامل کر کے کمیشن بنایا وہ بھی مسائل حل نہیں کر سکے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ سی ڈی اے صرف ایف سکس اور ایلیٹ کلاس کی خدمت میں لگی ہے ،ایک پارلیمنٹ ، دو اعلیٰ عدالتیں اس شہر میں ہیں پھر قانون کا یہ حال کیوں؟ یہ عدالت سمجھنا چاہتی ہے کہ کیا صرف اسلام آباد میں ہی اتنی ناانصافی ہے۔
چیف جسٹس ہائیکورٹ نے کہاکہ سی ڈی اے صرف غریب کا کھوکھا گرا سکتا ہے طاقت ور کا گھر تو ریگولرائز ہو جاتا ہے، مزدور سب سے زیادہ بے گھر تھا اس کو پلاٹس کیوں نہ ملے؟، وکیل ہاوَسنگ فاوَنڈیشن نے کہاکہ نیا پاکستان ہاوَسنگ سکیم میں اب گھر دیئے جا رہے ہیں۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسارکیاکہ پارلیمانی اراکین کو پلاٹوں کی سکیم میں شامل کیوں نہیں کرتے؟ وکیل نے کہاکہ پارلیمانی اراکین نے قائدِاعظم یونیورسٹی کےساتھ سکیم شروع کی تھی، چیف جسٹس ہائیکورٹ نے استفسار کیا کہ اگر ارکان پارلیمنٹ سکیم شروع کریں تو کیا کرپشن ہو جاتی ہے،اسلام آباد کے سیکٹر ایف 14 اور ایف 15 کے متاثرین کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔