” ہر مرد کے اندر یہ آرزو ہوتی ہے کہ وہ عورت کو اس کی پٹری سے اتارے اور اپنے راستے پر لے کر چلے ” بانو قدسیہ
میرا ماننا ہے کہ بانو آپا کی اس بات کے پیچھے بہت ہی پیچیدہ حقیقت چھپی ہے۔ جسے صرف ایک ایسی عورت ہی سمجھ سکتی ہے جو اس تجربے سے گزری ہو۔ نام نہاد سول سوسائٹی اور فیمینسٹ گروپ تحریک روتی پیٹتی عورتوں کے لیے کم اور خود مختار عورت کے لیے آواز اٹھاتی ہوئی زیادہ نظر آتی ہیں۔ جسے مرد بھرپور انداز میں سپورٹ کرتے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ آج کا مرد عورت کی آزادی نہیں چاہتا ہے بلکہ وہ عورت تک پہنچنے کی آزادی چاہتا ہے بلکل غلط نہ ہوگا۔
سوشل میڈیا کے ذریعے ، ملازمتوں کی جگہوں پر اور تعلیمی اداروں میں ہی نہیں بلکہ خاندان گھر بار میں بھی عورت کا اپنے باپ بھائیوں سمیت دیگر کئی مرد حضرات سے واسطہ پڑتا ہے۔
مریم میری اسکول فرینڈ ہے حال ہی میں میری اس سے ملاقات ہوئی۔ اس نے بتایا کہ وہ ایک کمپنی میں ملازمت کررہی ہے۔ بقول مریم کے اسے اس کمپنی میں ملازمت کرتے ہوئے ڈھائی سال کا عرصہ ہوچکا تھا۔ اسی کمپنی میں ایک لڑکا ارسلان بھی کام کرتا تھا۔ ارسلان سنجیدہ اور ذمہ دار انسان تھا۔ ہر کام کو انتہائی ذمہ داری کے ساتھ پورا کرنا، اپنے کام سے کام رکھنا، کسی کی فالتو باتوں میں حصہ نہ لینا اسکی یہ ساری خصوصیات مجھے بہت پسند تھیں۔ مگر میں نے کبھی اس بات کا اظہار نہیں کیا تھا۔ کیونکہ میرے خیال سے عورت کو اپنے ارد گرد ایک دیوار ایسی ضرور رکھنی چاہیے جس کے اندر کوئی بھی نامحرم داخل نہ ہوسکے۔
ارسلان کو اس سے اظہار محبت کیے ہوئے ایک سال گزر چکا ہے مگر اس دن کے بعد سے ارسلان نے رشتہ لے کر آنے، اپنے والدین کو مریم کے گھر بھیجنے کے حوالے سے دوبارہ کبھی بات نہیں کی۔
ایک دن آفس کی چھٹی کے ٹائم پر میں نے دیکھا کہ ارسلان میری طرف تیزی سے چلتا ہوا آرہا ہے۔ میں سمجھی آفس کے کام کی کوئی بات کرنی ہوگی۔ ارسلان میری طرف بڑھا اور کہا کہ مجھے تم سے کچھ ضروری بات کرنی ہے۔ میں نے کہا ! ہاں بولو ارسلان کیا بات ہے؟ اچانک اس نے میرے لیے اپنی پسندیدگی کا اظہار کرنا شروع کیا۔ میں حیران تھی کہ کہیں یہ خواب تو نہیں۔ میں تمہیں پسند کرتا ہوں، شادی کرنا چاہتا ہوں، کیا میں اپنے امی ابو کو تمہارے گھر بھیج سکتا ہوں؟ یہ اور اس جیسی کئی باتیں اور سوالات ۔ میں اس وقت سب کچھ صرف خاموشی سے سنتی رہی۔ وہ باتیں میری ان حفاظتی دیواروں میں چھید کرنے لگیں۔ اس کے بعد سے میرا دل ارسلان کے لیے نرم پڑنے لگا ۔ میں نے اپنے وجود کے گرد جو حفاظتی دیوار بنارکھی تھی وہ آہستہ آہستہ گرتی گئی۔ جس کا مجھے بلکل اندازہ نہ ہوا۔ آفس میں ارسلان کے علاوہ کسی لڑکے کہ ہمت نہ تھی کہ وہ میری ٹیبل پر آکر بیٹھ جائے اور مجھ سے کام کے علاوہ بات کرسکے۔ فون پر بات چیت کرنا یہاں تک کہ آفس سے جانے کے بعد واٹس ایپ اور اسکائپ کے ذریعے ویڈیو کالز پر باتیں کرنا ہمارا معمول بن گیا تھا۔ مریم نے بتایا کہ ارسلان کو اس سے اظہار محبت کیے ہوئے ایک سال گزر چکا ہے مگر اس دن کے بعد سے ارسلان نے رشتہ لے کر آنے، اپنے والدین کو مریم کے گھر بھیجنے کے حوالے سے دوبارہ کبھی بات نہیں کی۔ مریم پریشان تھی اس نے مجھے بتایا کہ اسے سمجھ نہیں آرہا کہ آخر وہ کرے تو کیا کرے؟
ارسلان سے کئی بارگھر پر رشتہ لے کر آنے کے حوالے سے بات کی ہے مگر وہ کوئی جواب نہیں دیتا۔ مریم نے کہا کہ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ میں سراب کے پیچھے بھاگ رہی ہوں جو دور سے دیکھنے پر قریب نظر آتا ہے اور قریب پہنچنے پر غائب ہوجاتا ہے۔ مجھے نہیں پتا کہ مجھے کتنا انتظار اور کرنا ہے؟ مجھے اب یہ معاملہ حقیقت کی شکل اختیار کرتا نظر نہیں آرہا۔ کیا یہ بات واقعی سچ ہے کہ ارسلان کی خواہش صرف میرے دل میں اپنی جگہ بنانے کی حد تک کی تھی؟ اب اگر کبھی میں اس سے رشتے کی بات کرتی ہوں تو اسے اپنی مجبوریاں کیوں یاد آجاتیں ہیں؟ کیا شادی کے نام پر لڑکی کو باآسانی بے وقوف بنایا جاسکتا ہے؟ مریم کی کہانی کا انجام کیا ہوگا؟