برطانیہ اور پاکستان کے درمیان کیش کی صورت میں منی لانڈرنگ کا خدشہ برقرار ہے۔
برطانیہ کے نیشنل رسک اسیسمنٹ آف منی لانڈرنگ اینڈ ٹیررسٹ فنانسنگ کی رپورٹ نے خبردار کردیا۔
برطانوی ادارے کے مطابق غیر ملکی بدعنوان عناصر کے لیے برطانوی پراپرٹی مارکیٹ بالخصوص لندن دلچسپی کا مرکز رہا۔
چین، پاکستان، ہانگ کانگ، روس اور عرب امارات سےکرپشن کی دولت برطانیہ لائی جاتی ہے جب کہ کالا دھن اب بھی رئیل اسٹیٹ اور قیمتی جواہرات کی خریداری میں لگایا جاتا ہے۔
برطانیہ کی ’نیشنل اسسمنٹ آف منی لانڈرنگ اینڈ ٹیررسٹ فنانسنگ 2020‘ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان سے ناجائز پیسہ بغیر رکاوٹ رواں برس بھی برطانیہ آتا رہا۔
رپورٹ کے مطابق غیر ملکی اشرافیہ، برطانیہ خصوصاً لندن کی پراپرٹی میں پیسہ لگاتی ہے، ہوم آفس اور ٹریژری کی مشترکہ طور پر پیش کردہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان کے علاوہ چین، ہانگ کانگ، روس اور متحدہ عرب امارات سے بھی منی لانڈرنگ کے ذریعے زیادہ پیسہ برطانیہ پہنچتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق بعض پاکستانی منی لانڈرنگ کے ذریعے برطانیہ میں قیمتی اثاثے خرید رہے ہیں، برطانیہ سے بعض افراد پاکستان میں نقد ناجائز کمائی سے اثاثے خریدتے ہیں، مجرمان پاکستان میں ریئل اسٹیٹ، زیورات و جواہر خرید کر برطانیہ سے پیسہ بھیجتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق کرپشن اور منشیات کی اسمگلنگ سے حاصل ہونے والا پیسہ منی لانڈرنگ کرکے اثاثے خریدے جاتے ہیں، نقد یا منی سروس بزنس کے ذریعے رقم بھجوانے کا سلسلہ بدستور چل رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق 2018 میں پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس )ایف اے ٹی ایف( کی گرے لسٹ میں منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ کے سبب ڈالا گیا تھا، ایف اے ٹی ایف نے بعد میں پاکستان کی اس ضمن میں مثبت کاوشوں کا اعتراف کیا تھا، برطانیہ، ایف اے ٹی ایف کے رکن کے طور پر پاکستان کی معاونت کرتا رہا ہے ،نیشنل کرائم ایجنسی اور پاکستانی حکام کے درمیان تعاون سے غیر قانونی مالی اعانت کے خطرات سے نمٹا گیا، ان کاوشوں کے سبب دسمبر 2019 میں ایک پاکستانی سے رقم اور 190 ملین پاؤنڈ مالیت کی جائیداد پاکستان کو ملی۔
رپورٹ کے مطابق منظم جرائم برطانیہ کی سلامتی کیلئے خطرہ ہیں، ان سے سالانہ 37 ارب پاؤنڈ کا نقصان ہوتا ہے۔