کراچی: کیماڑی میں پراسرار زہریلی گیس سے دو دنوں کے دوران چار افراد جاں بحق اور 22 افراد متاثر ہوگئے تاحال فروری کی ہلاکتوں کی رپورٹ بھی سامنے نہیں آسکی۔
ذرائع کے مطابق کیماڑی میں فروری کے بعد ایک بار پھر سے زہریلی گیس ہوا میں پھیل رہی ہے جس کے سبب دو روز کے دوران چار افراد جاں بحق اور 22 متاثر ہوچکے ہیں۔ تمام متاثرہ افراد فروری میں پھیلنے والی پراسرار زہریلی گیس سے متاثرہ علامات کے ساتھ اسپتال لائے گئے۔
چئیرمین ضیاالدین اسپتال ڈاکٹر عاصم حسین نے گیس سانحے کی سابقہ رپورٹ تاحال سامنے نہ آنے کو حکومتی اداروں کی نااہلی قرار دیتے ہوئے سب سے پہلے کیماڑی میں پھیلنے والی گیس کی قسم کا پتا لگانے کی اہمیت پر زور دیا۔
ترجمان ضیاء الدین اسپتال کے مطابق 18 دسمبر کی رات 12 بجے کے بعد 9 مریض اسپتال لائے گئے جن میں سے ایک کو مردہ حالت میں اسپتال لایا گیا، باقی 8 متاثرہ افراد کو طبی امداد دے کر روانہ کردیا گیا، بعد ازاں 23 دسمبر کی رات 2 بجے سے تین بجے کے درمیان 13 مریض اسپتال آئے جن میں سے دو دوران علاج جاں بحق ہوگئے تھے۔
ترجمان کے مطابق یہ دو افراد بہت زیادہ تشویش ناک صورتحال میں اسپتال آئے تھے جن کا زیادہ دیر علاج نہیں ہوسکا اور وہ بچ نہیں سکے جبکہ ایک کو مردہ حالت میں لایا گیا تھا، دو دنوں میں کل 22 مریض اسپتال لائے گئے تھے، جن میں سے 4 افراد جاں بحق ہوئے ہیں، جو بھی مریض اسپتال آئے وہ رات 12 کے بعد ہی لائے گئے ہیں، دن میں کوئی مریض اسپتال نہیں آیا، ان متاثرہ افراد میں خواتین اور مرد دونوں شامل تھے اور ان خواتین میں ہمارے اسپتال کی ایک نرس بھی شامل تھی، یہ تمام افراد اپنے اہلخانہ اور رشتے داروں کے ہمراہ اسپتال آئے تھے۔
ترجمان نے بتایا کہ ان تمام مریضوں سے پوچھنے پر انہوں نے وہی تمام علامات بتائیں جو کہ فروری کے مہینے میں پراسرار گیس لیکیج کے باعث اسپتال لائے جانے والے مریضوں نے بتائیں تھیں، انہیں سانس لینے میں دشواری کا سامنا تھا اور فضا میں بو محسوس کر رہے تھے، ہم نے ان مریضوں کو آکسیجن دی اور نیبولائز کیا، کسی مریض کو وینٹی لیٹر کی ضرورت پیش نہیں آئی، ایک دو گھنٹے میں طبیعت بہتر ہوئی جس کے بعد مریض گھر چلے گئے۔
چئیرمین ضیا الدین اسپتال ڈکٹر عاصم حسین نے کہا ہے کہ پچھلے گیس سانحے کی رپورٹ اب تک نہیں آئی، انوائرمینٹل پروٹیکشن کے لیے اقدامات نہیں کیے گئے، ائیر میٹریا ائیر اینالیسز کی جاتی تو یقینا حقائق تک پہنچا جاسکتا تھا، یہ ٹوکسک گیسز کے ری ایکشن ہیں جو دو طرح کے ہوتے ہیں ایک اس سے جسم میں اثر ہونا شروع ہوجاتا ہے اور آکسیجن کا پھیپھڑوں میں ایکسچینج نہیں ہوپاتا، دوسرا سب سے خطرناک یہ آکسیجن کا ٹرانسمیشن بلاک کرسکتے ہیں۔
ڈاکٹر عاصم حسین نے کہا کہ چونکہ کیماڑی میں پیٹرول کی بھی جیٹیز ہیں، ہوسکتا ہے کہ یہ پیٹرول کی ایک پروڈکٹ ہو، بینزین کے کلاسیکل سمپٹمز ہوسکتے ہیں، پیٹرول میں شامل بینزین ہوا کے رخ بدلنے پر پھیلتا ہو اس کی بھی علامات ایسی ہوسکتی ہیں، سب سے پہلے یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ یہ گیس کونسی ہے، اس گیس سے زیادہ تر کھانسی، نزلہ، زکام یا لنگز انفیکشن میں مبتلا افراد متاثر ہورہے ہیں تو ان علاقوں میں رہنے والے افراد کو چاہیے کہ اگر انہیں ایسی کوئی علامات محسوس ہوتی ہے تو کسی کلینک جانے کے بجائے فوری طور پر قریبی اسپتال جائیں اور ڈاکٹر کو دکھائیں تاکہ انکی جان بچائی جاسکے۔
واضح رہے کہ فروری میں بھی ہوا میں پھیلنے والی اس پراسرار زہریلی گیس کے سبب 14 افراد جاں بحق ہوگئے تھے اور شبہ ظاہر کیا گیا تھا کہ بندرگاہ پر لنگر انداز جہاز سے سویا بین کی منتقلی ہوئی جس میں مکمل احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کی گئیں، مختلف ماہرین کی رائے سامنے آتی رہیں کچھ نے سویا بین ڈسٹ کو وجہ قرار دیا جبکہ کچھ نے کہا کہ جن افراد کو اس سے الرجی ہے صرف انہیں سانس لینے میں دشواری ہوسکتی ہے اور موت واقع ہوسکتی ہے جبکہ وفاقی اور صوبائی دونوں حکومتوں کی جانب سے تحقیقات کروانے اور نتائج سامنے لانے کے دعوے کیے گئے تھے تاہم حتمی رپورٹ اب تک سامنے نہیں آسکی۔