رپورٹ:عظمت خان
جمعیت علمائے اسلام (ف) نے قومی احتساب بیورو (نیب) کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل جانے کا فیصلہ کرلیا۔
مولانا فضل الرحمن کو نیب سخت دبائوکے باوجود شکنجے میں نہیں لا سکا۔ جمعیت علمائے اسلام کے باغی گروپ کے متعدد افراد کی مدد لینے کے باوجود کرپشن کا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔
حزب اختلاف کی تمام پاکستانی سیاسی جماعتوں کے خلاف نیب کے کیسز جاری ہیں تاہم ان کیسوں میں کب ملزم کو پکڑنا ہے؟ اس حوالے سے مواقع کا انتخاب بھی مرضی سے کیا جاتا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک الائنس (پی ڈی ایم )کے سربرا ہ مولانا فضل الرحمن کے خلاف بھی قومی احتسا ب بیورو (نیب) متحرک ہے تاہم تاحال نیب مولانا فضل الرحمن کے خلاف کوئی بھی ٹھوس ثبوت حاصل کرنے میں یکسر ناکام ہے۔ یہی سبب ہے کہ نیب کے نوٹسزکو جمعیت علمائے اسلام کی جانب سے کوئی بھی اہمیت نہیں دی جارہی جس کی وجہ سے نیب حکام کو دیگر جماعتوں کے سامنے سبکی اور حکومت کے سامنے سخت دبائوکا سامنا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ نیب نے مولانا فضل الرحمن کے معاون طارق بلوچ کے والد کو بھی گرفتارکیا تھا، جن سے ان کی آبائی گائوں ڈھکی میں موجود زمینوں کے متعلق ریکارڈ لینے کے باوجود بھی نیب کوئی کیس نہیں بنا سکا۔ اس کے بعد براہ راست مولانا فضل الرحمن کو سوالات بھیجنے کا معاملہ ذرائع ابلاغ میں لایا گیا تھا۔
ذرائع کے مطابق ان سوالات کا مقصد جمعیت علمائے اسلام کی آئندہ حکمت عملی کو جاننا تھا۔ اب نیب ایک بار پھر مولانا فضل الرحمن کے دیگر کئی افراد کے بارے میں بھی ریکارڈ دیکھ رہی ہے۔لیکن فی الحال براہ راست کوئی بھی قابل گرفت ریکارڈ نہیں مل سکا۔
اس حوالے سے جمعیت علمائے اسلام خیبر پختونخوا کے امیر مولانا سینیٹر عطا الرحمن نے رابط کرنے پر ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ’’نیب میں ہمت ہی نہیں کہ وہ ہمیں نوٹس بھیجے۔ ہمارا شروع سے موقف ہے کہ نیب سیاست دانوں کے خلاف استعمال ہونے والا ایک سرکاری ادارہ ہے‘‘۔
ایک سوال پر ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’پتھر جس جانب سے آرہا ہے، اسی جانب ہم جواب دیں گے اور ہم اسی جانب متوجہ ہیں‘‘۔ ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن کو اگرگرفتارکرنے کی کوشش کی گئی تو اس کے بعد نتائج کے ذمہ دار نیب حکام اور نیب کو احکامات دینے والے ہوںگے‘‘۔
اس حوالے سے جمعیت علمائے اسلام کے رہنما کامران مرتضی ایڈووکیٹ نے ’’امت‘‘ کے رابطہ کرنے پر بتایا کہ نیب اس وقت مولانا فض الرحمان کے خلاف میڈیا وار چلارہا ہے۔ نیب نے اگر نوٹس جاری نہیں کیا تھا، تو وہ اس چینل کو جواب دیتا کہ ہم نے نوٹس نہیں بھیجا۔ پھر کیوں اس طرح کے سوالات نیب کے کندھے پر رکھ کر ایک نجی چینل نے چلائے؟ صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ نیب پر دبائو ہے اور نیب اس دبائو کے نتیجے میں اس طرح کی حرکتیں کر رہا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ مولانا کو نیب کا نوٹس جاری نہیں ہوا ہے اور ایک نجی چینل نے نیب کے نام پر اس طرح کی حرکت کی ہے، جس کا جواب خود اس کے پاس نہیں ۔ اس حوالے سے سے جمعیت علمائے اسلام کے حالیہ مجلس عاملہ کے اجلاس میں فیصلہ ہو اہے کہ جمعیت علمائے اسلام کے وکلا ونگ اس پر بات پر غور کریں گے کہ نیب اور اس کے چیئرمین کے خلاف قانونی طورپرکہاں تک جایا جاسکتا ہے۔ اس لیے وفاقی اور صوبائی وکلا ونگزکو جائزہ لینے کو کہا گیا ہے کہ نیب کے چیئرمین کے خلاف آرٹیکل 209 کے تحت عدالت یا سپریم جوڈیشل کونسل جایا جاسکتا ہے یا نہیں؟۔
کامران مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ نیب پورے پاکستان کے سیاست دانوں کا احتساب کرتا ہے۔ اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ نیب کے چیئرمین خود صا دق اور امین نہیں ہیں۔ اس لiے مجلس عاملہ کے اجلاس میں وکلا کو ذہن سازی کرنے کا کہا گیا ہے کہ نیب کے چیئرمین کا احتساب کرنے کے حوالے سے قانونی تیاری کی جائے گی۔ جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ کا احتسا ب کرنے والا نیب کا چیئرمین بھی خود کو احتسا ب کیلiے پیش کرے۔ نیب کے چیئرمین جاوید اقبال بھی عوام کی نظر میں خود کلیئر کرائیں اور نیب کا سربراہ ایسا شخص ہو جس کے دامن پرکوئی داغ نہ ہو۔
ادھر ذرائع کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمن کے خلاف نیب کے اوپر ددبائو کی وجہ سے نیب نے جمعیت علمائے اسلام کے کئی رہنمائوں کا ریکارڈ بھی چیک کرنا شروع کردیاہے اور اس حوالے سے نیب کئی کاروباری شخصیات کے لنکس کو جے یو آئی سے جوڑنے کے لiے مختلف سرکاری اداروں سے کاروباری شخصیات سے ریکارڈ منگوا چکا ہے تاہم کاروباری شخصیات کا بھی براہ راست تعلق جے یو آئی سے نہ ہونے کی وجہ سے نیب کو مایوسی کا سامنا ہے۔