اسلام آباد ہائیکورٹ نے جبری مشقت کیخلاف بڑا فیصلہ سنادیا۔
عدالت نے جبری مشقت سے متعلق حقائق جاننے کیلئے ڈی سی اسلام آباد کی سربراہی میں کمیشن قائم کردیا جو ایک ماہ کے اندر تمام حقائق کا جائزہ لے گا۔
چیف جسٹس ہائیکورٹ اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ مہینے کے بعد آپ آکر عدالت کو بتائیں کہ اب ایک بھی جبری مشقت کا کیس نہیں رہ گیا ، لوگوں کے کاروبار بند ہوتے ہیں تو ہو جائیں لیکن جبری مشقت برداشت نہیں ہو گی، بازیاب ہونے والے بچوں کی تعلیم اور ویلفیئر کا معاملہ بھی ریاست دیکھے، بچوں کو اغوا کر کے ان کو جبری غلام کی طرح رکھنا ، اس سے بڑا کوئی ظلم ہو نہیں سکتا، اس کیس کو ایسی مثال بنائیں گے کہ آئندہ کوئی ایسا ظلم کرنے کی ہمت نہ کرے، بھٹوں والے پہلے بچوں کے والدین کو قرض دیتے ہیں پھر ان کے بچوں کو ہمیشہ یرغمال بنا لیتے ہیں، اکیسویں صدی میں یہ غلامی کی بدترین قسم ہے جس طرح بچوں سے جبری مشقت لی جاتی ہے۔
اسلام آباد انتظامیہ نے بھی تمام اینٹوں کے بھٹوں کا مکمل آڈٹ کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ ڈی سی اسلام آباد بھٹے سے بازیاب بچوں کیساتھ عدالت کے سامنے پیش ہوئے اور کہا کہ تمام مدارس اور دیگر جگہوں پر بھی سروے کروا رہے ہیں وہاں بچوں و دیگرملازمین کو کن شرائط پر رکھا گیا ہے۔
بعدازاں ڈپٹی کمشنر حمزہ شفقات نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عدالت نے کمیشن قائم کیا ہے یہ اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے، کمیشن جائزہ لے گا اور بھٹوں کا آڈٹ کریں گے، 1992 کے قانون کے تحت اس جرم میں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ٹرائل کرتا ہے، کم از کم جرمانہ 50 ہزار اور سزا اسکے علاوہ ہے۔