اسامہ ستّی کا کسی ڈکیتی یا جرم سے کوئی واسطہ ثابت نہیں ہوا، اسامہ کو گولیاں جان بوجھ کر قتل کرنے کی نیت سے ماری گئیں،گولیاں ایک اہلکار نےنہیں 4 سے زائد اطراف سے ماری گئیں
اسامہ ستّی کا کسی ڈکیتی یا جرم سے کوئی واسطہ ثابت نہیں ہوا، اسامہ کو گولیاں جان بوجھ کر قتل کرنے کی نیت سے ماری گئیں،گولیاں ایک اہلکار نےنہیں 4 سے زائد اطراف سے ماری گئیں

اسامہ قتل پر پی ٹی آئی کارکنان پارٹی سے بدظن

نمائندہ امت:
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں سی ٹی ڈی پولیس کی گولیوں کا نشانہ بننے والے 22 سالہ طالبعلم اسامہ ستی کے قتل پر پی ٹی آئی کارکنان پارٹی سے بدظن ہوگئے۔ مری اور راولپنڈی کے کارکنان اورمقامی عہدیدران نے مقتول پی ٹی آئی سپورٹرکو انصاف ملنے تک پارٹی سرگرمیوں سے اعلان لاتعلقی کردیا ہے۔ اپنی حکومت پرعدم اعتماد کا اظہارکرتے ہوئے پی ٹی آئی کے کئی کارکنوں نے پارٹی چھوڑنے کی دھمکی دے دی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ حکومت نے سانحہ ساہیوال کے ملزمان کو بھی کیفر کردار تک پہنچانے کا وعدہ کیا تھا، مگر وہ تمام وعدے لالی پاپ ہی ثابت ہوئے۔ گزشتہ روز وفاقی وزیر برائے اینٹی نارکوٹکس شہریارآفریدی اور وزیر مملکت برائے اوورسیز پاکستانیز زلفی بخاری مقتول اسامہ ستی کے والد سے تعزیت کے لیے ان کے گھر پہنچے تو انہیں تحریک انصاف کے کارکنوں کی جانب سے شدید احتجاج اور ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔

جب وفاقی وزیر شہریارآفریدی نے اسامہ کے والد ندیم ستی سے تعزیت کرتے ہوئے یہ رسمی بیان دیا کہ ملزمان کو کسی صورت نہیں بخشا جائے گا تو موقع پر موجود تحریک انصاف کے کارکنان پھٹ پڑے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسامہ خود ان کے ساتھ مل کر تحریک انصاف کے لیے انتخابی مہم چلاتا رہا ہے۔ اگر ہماری اپنی ہی جماعت کا کارکن دارالحکومت کی شاہراہ پر قانون کے محافظوں کے ہاتھوں گولیوں سے چھلنی کر دیا جاتا ہے تو ہم کسی اورکو کیا انصاف دلائیں گے؟۔ اس موقع پر یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ اسامہ کے قتل کی عدالتی تحقیقات کے ساتھ ساتھ ریاست خود مدعی بنے اور اس کیس کو ٹیسٹ کے طور پر لیا جائے۔

ذرائع کے مطابق اس موقع پر اسامہ کے والد ندیم ستی نے بھی وفاقی وزرا پر واضح کر دیا کہ وہ اور ان کا خاندان ہائی کورٹ کے جج سے کم عدالتی تحقیقات قبول نہیں کریں گے۔ یہی بات اتوار کے روز وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید پر بھی واضح کر دی گئی تھی۔ جب وہ اسامہ کے قتل پر تعزیت کے لیے متاثرہ خاندان کے گھر پہنچے تھے۔

خیال رہے کہ قبل ازیں حکومت واقعے کی عدالتی تحقیقات پر آمادہ نہیں تھی۔ کیونکہ وزیر داخلہ شیخ رشید کا کہنا تھا کے ملزم گرفتار ہو چکے ہیں اور قانون کے مطابق ان کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے۔ ایف آئی آر میں قتل اور دہشت گردی کی دفعات شامل کی گئی ہیں، جن کی سزا موت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ عدالتی تحقیقات کی ضرورت نہیں۔ تاہم چیف کمشنر اسلام آباد نے اتوار کو واقعے کی عدالتی تحقیقات کا اعلان کر دیا تھا۔ جبکہ مقتول کے گھر سے واپسی پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر داخلہ کا بھی یہی کہنا تھا کہ متاثرہ خاندان کے اطمینان کے مطابق عدالتی تحقیقات سمیت جو بھی ہوگا حکومت کرے گی۔
واضح رہے کہ مری کی تحصیل کوٹلی ستیاں سے آبائی تعلق رکھنے والے 22 سالہ اسامہ ستی کو ہفتے کی رات گئے سی ٹی ڈی کے پولیس اہلکاروں نے گولیاں مار کر قتل کر دیا تھا۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ انسداد دہشت گردی اسکواڈ کے پانچ اہلکاروں نے اسامہ ستی کی گاڑی کو رُکنے کا اشارہ کیا اورگاڑی نہ روکے جانے پر گولیاں چلا دیں۔ یہ واقعہ اسلام آباد کے سری نگر ہائی وے پر پیش آیا۔ حکومت نے قتل کی تحقیقات کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں پر مشتمل جے آئی ٹی تشکیل دے دی ہے۔ جبکہ واقعے کی عدالتی تحقیقات پر بھی آمادگی ظاہر کی گئی ہے۔

ذرائع کے مطابق پولیس کے بیان میں تو واقعے کو بہت سادگی سے پیش کیا جا رہا ہے کہ سفید رنگ کی ایک گاڑی کو روکنے کی کوشش کی گئی اور نہ رکنے پر فائرنگ کردی گئی۔ تاہم معاملہ اتنا سادہ نہیں۔ اسامہ کے والد ندیم ستی کا کہنا ہے کہ ان کے بیٹے کا چند روز قبل کچھ پولیس اہلکاروں سے جھگڑا ہوا تھا اور ان کے خیال میں اسامہ کا قتل اسی جھگڑے کا نتیجہ ہے۔

اسامہ کے قتل پر تعزیت کے لیے جانے والے وفاقی وزرا سے بھی مقتول کے رشتہ داروں نے یہ شکایت کی ہے کہ پولیس قاتلوں کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے اور مقتول کے خاندان سے تعاون نہیں کر رہی۔ اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ اتنے ہائی پروفائل کیس کی سی سی ٹی وی فوٹیج ابھی تک سامنے نہیں لائی گئی۔ جبکہ چھوٹے چھوٹے واقعات اور ڈکیتی کی وارداتوں کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی اگلے چند منٹ میں سامنے آ جاتی ہے۔

متاثرہ خاندان کا یہ بھی کہنا ہے کہ فوٹیج سامنے نہ آنے کی وجہ سے ابھی تک یہ بات بھی واضح نہیں کہ واقعہ سرینگر ہائی وے پر کس جگہ پیش آیا۔ اسی طرح پولیس کے اس دعوے میں بھی کوئی جان نظر نہیں آرہی کہ گاڑی کو روکنے کی کوشش کی گئی اور نہ رکنے پر فائرنگ کی گئی۔ کیونکہ مقتول کی گاڑی پر سامنے سے گولیاں برسائی گئیں اور ٹائروں پر گولیوں کے نشانات موجود نہیں ہیں۔

واضح رہے کہ ابتدائی طور پر پولیس کے بعض افسران کا یہ بیان بھی سامنے آیا تھا کہ مقتول اسامہ گاڑی کو بھگا کر آٹھ کلومیٹر تک لے گیا تھا۔ آٹھ کلومیٹر دور تک کسی گاڑی کا پیچھا کرنا اور اس پر براہ راست فائرنگ کرنا کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ جن میں سے ایک ذاتی دشمنی یا پرانی رنجش کا پہلو بھی ہے۔ ذرائع کے مطابق جے آئی ٹی کی تفتیش کا ایک اہم پہلو یہی جھگڑا ہوگا اور تفتیشی ٹیم یہ جاننے کی کوشش ضرور کرے گی کہ آیا ایک عام طالب علم کا پولیس اہلکاروں کے ساتھ کیا جھگڑا ہو سکتا ہے۔ جو بالآخرایک نوجوان کی زندگی چھین لینے پرمنتج ہوا۔

اصل صورتحال تو واقعے کی مکمل تحقیقات کے بعد ہی سامنے آئے گی تاہم تفتیشی ذرائع کا کہنا ہے کہ چند روز پہلے کے جھگڑے کے پیچھے ایک پوری کہانی موجود ہے۔ جس کا ایک اہم کردار فائرنگ کرنے والے پانچ اہلکاروں میں سے ایک اہلکار بھی ہو سکتا ہے جس کا چند روز پہلے یونیورسٹی میں مقتول اسامہ ندیم ستی سے جھگڑا ہوا تھا۔ اس جھگڑے کے پس منظراوراسباب کو فی الوقت قانونی نزاکتوں اورمتاثرہ خاندان سے ہمدردی کے سبب خفیہ رکھا جا رہا ہے تاہم اس امکانی پہلو پر تحقیقات جاری ہیں کہ اسامہ سے جھگڑے کے بعد مذکورہ اہلکار نے اسے ڈرانے دھمکانے کے لیے اپنے ساتھی اہلکاروں کی مدد حاصل کی ہو، اور گاڑی روکنے کی کوشش یا پیچھا کرنے کا مقصد ڈرانا دھمکانا ہی ہو مگرعین موقع پر اشتعال میں آ کر یا جذبات سے مغلوب ہو کر مذکورہ اہلکار نے ہی فائرنگ کی ہو۔

بعض ذرائع کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اسامہ کی گاڑی پر فائرنگ ایک ہی شخص نے کی۔ جس کی تصدیق آگے چل کر دوران تفتیش ہو سکتی ہے۔ مذکورہ ذرائع کے مطابق فائرنگ کے لیے سرکاری اسلحہ استعمال نہیں ہوا۔ تاہم اس بات کی ابھی تک حتمی تصدیق نہیں ہو سکی۔

دوسری طرف تحریک انصاف کے کارکن جواں سال اسامہ کے پولیس کے ہاتھوں قتل پر پارٹی کارکن شدید مشتعل ہیں۔ سوشل میڈیا پر #JusticeForUsama کا ٹرینڈ چل رہا ہے۔ جبکہ فیس بک اور واٹس ایپ گروپوں میں تحریک انصاف کے کارکن اپنی حکومت اورقیادت پرگرج برس رہے ہیں۔ تحریک انصاف مری اور راولپنڈی کے کئی کارکنوں اور مقامی عہدیداروں نے اعلان کیا ہے کہ اسامہ کے خاندان کو انصاف کی فراہمی تک پارٹی سرگرمیوں سے لاتعلق رہیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ اب وعدوں اور دعووں پر یقین نہیں کیا جائے گا۔ کیونکہ اس سے پہلے ہم سانحہ ساہیوال کے نتائج دیکھ چکے ہیں۔