امت رپورٹ:دوسری و آخری قسط
یوٹیلٹی اسٹورزکارپوریشن میں زیادہ تر گھپلے سبسڈی والی اشیا کی خریداری میں کیے گئے جس سے کارپوریشن کوبڑا مالی نقصان ہوا۔ جبکہ اس عمل میں شریک کارپوریشن کے ذمے داروں کے ساتھ ان دکانداروں اورکمپنیوں کو بھی مالی فوائد حاصل ہوئے جن سے مارکیٹ ریٹ سے زیادہ نرخوں پراشیا اور اجناس خریدی گئیں۔ اس کی نشاندہی خود کارپوریشن کے آڈٹ ڈیپارٹمنٹ نے بھی کی ہے۔
کارپوریشن کے ذرائع کے مطابق پچھلے دو برس کے دوران اس نوعیت کی کرپشن کے خلاف جتنی بھی انکوائریاں شروع کی گئیں، انہیں دبا دیا گیا جبکہ نشاندہی کرنے والے زیرعتاب آگئے۔ ان میں کارپوریشن کا سینئر اسٹور منیجر شہاب الدین بھی شامل ہے۔ جسے دال چنا کی خریداری میں میگا اسکینڈل بے نقاب کرنے کی پاداش میں نوکری سے برخاست کیا جاچکا ہے۔
صرف دال چنا کی خریداری میں کارپوریشن کو پہنچائے جانے والے کروڑوں روپے کے نقصان کا قصہ یہ ہے کہ انتظامیہ کے سرکردہ لوگوں نے مارکیٹ سے پینتیس سے چالیس روپے فی کلو زیادہ کے ریٹ پر سینکڑوں ٹن دال چنا خرید کر نہ صرف من پسند دکانداروں یا کمپنیوں کو مالی فوائد پہنچائے۔ بلکہ کک بیکس اور کمیشن کی مد میں اپنی تجوریاں بھی بھریں۔
’’امت‘‘ کو دستیاب ڈاکومنٹس کے مطابق ملک بھر کے یوٹیلٹی اسٹورز کو دال چنا کی فراہمی کے لئے اکیس جنوری دو ہزار بیس کو سات لاکھ سترہ ہزار کلوگرام دال چنا کی خریداری کا پرچیز آرڈر نمبر 504017 جاری کیا گیا۔ یہ دال چنا ایک سو انہتر روپے فی کلو (یعنی چھ ہزار سات سو ساٹھ روپے فی من) کے حساب سے خریدی گئی۔ جبکہ اس وقت ملک کی مختلف غلہ منڈیوں میں دال چنا کا ریٹ انتالیس سو روپے سے لے کر ستاون سو روپے فی من تھا۔ اس میں کم تر درجہ کی دال چنا انتالیس سو روپے فی من، درمیانی درجے کی اکیاون سو روپے فی من اور اعلیٰ کوالٹی کی دال چنا ستاون سو روپے فی من تھی۔
کارپوریشن کے پرچیز ڈیپارٹمنٹ سے منسلک ذرائع نے بتایا کہ چوبیس دسمبر دو ہزار انیس کو ایک سو اکیاون روپے فی کلو دال چنا کے ریٹ کا ٹینڈر جاری ہوا تھا۔ تاہم انتظامیہ کی جانب سے ریٹ زیادہ ہونے کا کہہ کر یہ ٹینڈر مسترد کر دیا گیا اور پھر ایک ہفتے بعد اکتیس دسمبر دو ہزار انیس کو نیا ٹینڈر جاری کیا گیا۔ جس میں حیران کن طور پر دال چنا کی خریداری کا ریٹ ایک سو انہتر روپے فی کلو تھا۔ یعنی پچھلے ٹینڈر کے مقابلے میں ریٹ اٹھارہ روپے فی کلو زیادہ تھا۔
بعد ازاں جنوری کے تیسرے ہفتے میں اسی ریٹ کے حساب سے پرچیز آرڈر جاری کیا گیا۔ حالانکہ اس وقت مارکیٹ میں فی کلو دال چنا کے ریٹ مختلف کوالٹی کے لحاظ سے ایک سو دو روپے سے لے کر ایک سو بیالیس روپے فی کلو تھے۔ ذرائع نے بتایا کہ اس سے پہلے عموماً ٹینڈر اسلام آباد میں ہوتے تھے۔ تاہم ٹینڈر کمیٹی کے چیئرمین سردار محمد خان نے یہ ٹینڈر کراچی سے کرایا۔ تاکہ منظور نظر فروخت کنندگان کو نوازنے کے ساتھ اپنے معاملات بھی سیدھے کیے جاسکیں۔ ان میں ایک ایسا شخص بھی تھا۔ جس کی پانچ مختلف ناموں سے کمپنیاں رجسٹرڈ ہیں۔
دال چنا کا ٹینڈر الآصف ٹریڈرز کو فی کلو ایک سو انہتر روپے میں کیا گیا حالانکہ اس وقت اکبری منڈی جوڑیا بازار میں دال چنا کی مختلف اقسام ایک سو دو روپے فی کلو سے ایک سو تیس روپے کلو تک دستیاب تھیں۔ مجموعی طور پر سات لاکھ سترہ ہزار کلوگرام دال چنا کا آرڈر ہوا تھا۔ اس میں سے ایک سو انہتر روپے فی کلو کے حساب سے ساڑھے پانچ سو ٹن دال چنا خریدی جا چکی تھی۔ اس کے نتیجے میں ابتدائی طورپرچار سے پانچ کروڑ کا نقصان ہوا تھا۔ دال چنا کی خریداری میں اس بڑے پیمانے پر بے ضابطگی اورکرپشن کے خلاف جب ادارے کے اندر سے آوازیں اٹھنی شروع ہوئیں تو اس ہائی ریٹ پر باقی خریداری وقتی طورپرروک دی گئی۔
دوسری جانب جو دال چنا یوٹیلٹی اسٹوروں میں پڑی تھی، اس کا سبسڈی ریٹ ایک سو ساٹھ روپے فی کلو فکس ہوا تھا۔ یعنی خریداری سے فی کلو پر نو روپے گھاٹے میں بیچی جا رہی تھی لیکن پھر بھی عوام نہیں خرید رہے تھے کہ اس سے تقریباً بیس روپے کم ریٹ پرمارکیٹ میں دستیاب تھی چنانچہ دال چنا کا ریٹ ایک سو تیس روپے کلو کردیا گیا۔ یوں کارپوریشن کو دو طرفہ نقصان پہنچایا گیا۔ ایک تو مارکیٹ سے زیادہ ریٹ پر خریدنے کی صورت میں اور دوسرا پھر اس مہنگی دال چنا کے ریٹ کم کیے گئے۔
بعد ازاں ٹینڈر کی باقی ماندہ دال چنا بھی ایک سو اکسٹھ روپے پچاس پیسے کے حساب سے خریدی گئی۔ یوں مجموعی طور پر دال چنا کی خریداری میں کارپوریشن کو پچاس سے ساٹھ کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔ یہ پیسے خریداری کرنے والے بدعنوان عہدیداران اور فروخت کنندگان کی جیب میں گئے۔ اس وقت کراچی کا زونل منیجر حبیب الرحمن بٹ، ٹینڈر کمیٹی کا چیئرمین سردار محمد خان، جنرل منیجر آپریشن اور ٹینڈر کمیٹی ممبر ملک اشفاق اور منیجر پروکیورمنٹ مہتاب بنوری اس سارے معاملے کے مرکزی کردار تھے۔ جبکہ منظوری ایم ڈی نے دی تھی۔ اس معاملے پر آواز اٹھانے والے سینئر اسٹور منیجر شہاب الدین کو نوکری سے فارغ کیا جا چکا ہے۔ شہاب الدین نے اس معاملے پر نہ صرف ایم ڈی کارپوریشن بلکہ نیب اور ایف آئی اے کو بھی تحقیقات کے لیے درخواستیں دے رکھی ہیں۔ لیکن تاحال ایکشن نہیں لیا گیا ہے۔
یوٹیلٹی اسٹوروں کے لیے خریداری کے معاملے میں گھپلوں کی کلاسک مثال حال ہی میں بے نقاب ہونے والا کیس ہے۔ جس کی نشاندہی خود کارپوریشن کے آڈٹ ڈیپارٹمنٹ نے کی ہے۔ صرف تین ماہ کے آڈٹ سے ہی تقریباً پونے ایک ارب روپے کی بے ضابطگی اور گھپلا سامنے آیا ہے۔ آڈٹ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر پچھلے پورے برس کے بارہ مہینے یا نومبر تک کا آڈٹ کیا جائے تو سبسڈی اشیا اور اجناس کی خریداری میں کارپوریشن کو پہنچایا جانے والا مجموعی نقصان اربوں روپے تک ہو سکتا ہے۔ لہٰذا سفارش کی گئی ہے کہ گزشتہ برس نومبر تک ایک درجن دکانداروں اور کمپنیوں سے گھی اور کوکنگ آئل کی سبسڈی اور خریداری پر خرچ ہونے والے انتیس ارب روپے سے زائد کا آڈٹ ہونا چاہئے۔ تاہم آڈٹ رپورٹ کی سفارش پر تاحال کسی قسم کی انکوائری شروع نہیں کی گئی۔
آڈٹ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جنوری دو ہزار بیس سے لے کر مارچ دو ہزار بیس کے دوران سبسڈی والے گھی اور کوکنگ آئل کی خریداری میں کارپوریشن کو ستّر کروڑ کا نقصان پہنچایا گیا۔ کیونکہ اس خریداری میں نہ صرف من پسند غیر معروف گھی برانڈز کو ترمیم کر کے سبسڈی کی کٹیگری میں شامل کیا گیا۔ بلکہ مارکیٹ ریٹ سے زیادہ ادائیگی بھی کی گئی۔ جنوری اور فروری دو ہزار بیس کی مختلف تاریخوں میں یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن نے مختلف برانڈز کی قیمتوں میں اضافہ شدہ نرخوں کی منظوری دی۔ تاہم کم نرخوں پر پہلے سے آرڈر شدہ مال اٹھانے کے بجائے انتظامیہ نے دکانداروں کو ایک سو نوے روپے فی کلوگرام کی زیادہ قیمت پر نئے آرڈر دیے۔ اس مد میں کارپوریشن کو تقریباً تیرہ کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔
آڈٹ رپورٹ کے مطابق یہ رقم پانچ برانڈز من پسند، دل دل گھی، حیات گھی، ماں گھی اور برکت گھی سے وصول کی جا سکتی ہے، جنہیں یہ فائدہ پہنچایا گیا۔ آڈٹ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حیات گھی کی خریداری کے لیے صرف ایک ایم ایس آئی ایف ایف سی او لمیٹڈ نامی کمپنی کو ناجائز مالی فائدہ پہنچانے سے کارپوریشن کو تین کروڑ اٹھہتر لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔ حیران کن طور پر کارپوریشن انتظامیہ نے مذکورہ کمپنی کی توقعات سے بڑھ کر اسے ریٹ دیئے۔ اور فی کلوگرام گھی پر سینتیس روپے اضافی ادا کئے گئے۔ کمپنی سے ایک کروڑ دو لاکھ سترہ ہزار کلوگرام حیات گھی ایک سو نوے روپے فی کلو گرام کے حساب سے خریدا گیا۔ جبکہ حیات گھی کی اصل قیمت ایک سو تریپن روپے فی کلوگرام تھی۔
آڈٹ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ حیات گھی کو سبسڈی کی کٹیگری میں لانے کے لئے جان بوجھ کر قیمت میں ترمیم کی گئی۔ کیونکہ حکومت کی طرف سے سبسڈی قیمت ایک سو ستر روپے فی کلو منظور کی گئی تھی۔ جبکہ اپنی اصل قیمت ایک سو تریپن روپے فی کلو گرام کی وجہ سے حیات گھی سبسڈی کی کٹیگری میں نہیں آرہا تھا۔ آڈٹ رپورٹ کے مطابق آرڈر دیتے وقت، حیات گھی جو کہ مارکیٹ میں نسبتاً کم مشہور برانڈ ہے، کو دوسرے معروف اور مستند برانڈز پر ترجیح دی گئی۔
اس حقیقت کے باوجود کہ معروف برانڈز عوام میں زیادہ فروخت ہوتے ہیں نتیجتاً گھی کی ایک بڑی مقدار فروخت نہ ہو سکی۔ یوٹیلٹی اسٹورز کی مجموعی طلب چودہ ہزار دو سو چھیاسٹھ میٹرک ٹن گھی میں سے تینتیس فیصد حیات گھی آرڈر کیا گیا تھا۔ اسی طرح ریبیٹ کلیم کی مد میں بھی کارپوریشن کو ایک کروڑ بانوے لاکھ کا نقصان ہوا۔
آڈٹ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تین ماہ کے دوران گھی اور کوکنگ آئل کی خریداری کے غیر شفاف معاملات کے باعث کارپوریشن کو مجموعی طور پر ستّر کروڑ روپے کا جھٹکا لگا۔ ذرائع نے بتایا کہ اس آڈٹ رپورٹ کی سفارش پر تحقیقات کرنا تو دور کی بات ہے۔ الٹا آڈٹ کرنے والے کارپوریشن کے آڈیٹر منیجر محمد ریاض طاہر کا تبادلہ فنانس سیکشن میں کردیا گیا ہے۔
اس سارے معاملے پر موقف کے لئے جب یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن کے ایک ذمہ دار سے رابطہ کیا گیا جو موقف دینے کا مجاز ہے۔ تو موصوف نے نام ظاہر نہ کرنے کی استدعا کرتے ہوئے بتایا کہ آڈٹ رپورٹ میں جن باتوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ یہ ابتدائی معاملہ ہے۔ محکمہ کے اندر اس کو دیکھا جارہا ہے۔ اگر آڈیٹر کی بیان کردہ تفصیلات میں جان ہوئی تو یہ معاملہ پبلک اکائونٹس کمیٹی میں بھیجا جاسکتا ہے۔