لندن: مقبوضہ کشمیر کے نہتے اورمظلوم لوگوں کی حالت زار کے حوالے سے دنیا بھر کے ایوانوں میں آوازیں اٹھنے لگیں جب کہ برطانیہ کے ارکان پارلیمان ہندوستان کی ریاستی دہشت گردی اور انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کے خلاف بول اٹھے۔
ذرائع کے مطابق برطانوی وزیر اور 10 ارکان پارلیمنٹ نے مقبوضہ کشمیر کے باسیوں کی بے بسی کی ترجمانی کی اور بھارتی ظالمانہ پالیسیوں پر کڑی تنقید کرنے کے ساتھ برطانوی حکومت پر بھی مقبوضہ کشمیرمیں ہونے والے مظالم پر واضح مؤقف اختیار کرنے کے لیے زور دیا۔
لیبر پارٹی سے تعلق رکھنے والی برطانوی رکن پارلیمنٹ سارا اوون نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر کا لاک ڈائون عوام کے تحفظ کے لئے نہیں بلکہ جبری تسلط کے لئے ہے۔5 لاکھ سے زیادہ بھارتی فوجیوں نےمقبوضہ کشمیر کے لوگوں کو قید کر رکھا ہے. انسانی حقوق کی بد ترین خلاف ورزیاں مشاہدے میں آئی ہیں،کشمیری مسلمانوں کو اسپتالوں میں جانے سے بھی روکا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارتی فوجی خواتیں کو ان کی گھر کی دہلیز پر ہراساں اور ان کی عصمت پر حملے کر رہے ہیں۔برطانیہ نے ہمیشہ خواتین کے تحفظ کی بات کی ہے۔کیا مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے اراکین پارلیمنٹ کے بیاںات ان کے اقدامات سے مطابقت رکھتے ہیں؟
ان کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر سے پناہ کی درخواست کرنے والی خواتین کو سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے۔مقبوضہ کشمیر میں ہلاکتوں کی شفاف تحقیقات کی جائیں۔مقبوضہ کشمیر میں آزادی اظہار پر پابندی ہے. مودی سرکار کیخلاف بات کرنا دہشتگردی کے زمرے میں آتا ہے۔
رکن پارلیمنٹ جیمز ڈیلین نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر انسانی حقوق کا سنگین مسئلہ ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں تشدد اور جبری گمشدگیاں عام ہیں۔ مغربی میڈیا مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر خاموش ہے۔ مقوضہ علاقے میں ریپ اور جنسی تشدد کے اندوہ ناک واقعات ہو رہے ہیں، ہمیں مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف متحد ہونا ہے۔
جان سپیلر نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر اور پنجاب کی صورت حال بھارت کا اندرونی معاملہ نہیں،ہم بھارت کے اس نقطہ نظر کو مسترد کرتے ہیں۔ہم بھارت کے خلاف نہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ بھارت کی مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اسے ذمہ دار نہ ٹھہرایا جائے۔انسانی حقوق ایک عالمی معاملہ ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورت حال کا ذمہ دار بھارت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورت حال کے لیے بھارت نے اپنے قانون میں ردوبدل کیا۔بھارت مقبوضہ کشمیر کی ڈیموگرافی کو تبدیل کر رہا ہے۔ڈیموگرافی کو تبدیل کر کے بھارت ایک ممکنہ ریفرنڈم کے مرضی کے نتائج حاصل کرنا چاہتا ہے۔
سارا برٹیکلئیر نے کہا کہ گذشتہ سال سے سیاسی و انسانی حقوق کے لیے بات کرنے والے ہزاروں کشمیریوں کو جیلوں میں ڈالا گیا، مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کوعدالتی و قانونی کارروائی کا حق بھی نہیں دیا جا رہا۔انہوں نے کہا کہ دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان یہ تنازعہ باعث تشویش ہونا چاہیے۔
ناز شاہ نے کہا کہ 2015 سے 2020 کے دوران برطانیہ نے 50 ارب پائونڈ مالیت کا اسلحہ بھارت کو بیچا۔یہی اسلحہ کشمیریوں کا خون بہانے میں استعمال ہو گا،بورس جونسن نے بھارت کا دورہ تو ملتوی کیا ہے، کیا وہ اسلحہ بیچنا بھی بند کریں گے؟عالمی اداروںِ حکومتوں اور قائدین بھارت کو کشمیروں کی نسل کشی سے روکنا چاہیے، یہ امن کا وقت ہے ، کچھ نہ کیا تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔
کنزرویٹو پارٹی کی روبی مور نے کہا کہ بھارت کسی غیر ملکی صحافی کو مقبوضہ کمشیر میں جانے کی اجازت نہیں دیتا۔ آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد 300 سے زیادہ کشمیریوں کی جانیں گئی ہیں۔ اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق کو مقبوضہ کشمیر تک رسائی حاصل کر کے حقائق کا پتا لگانا چاہیے۔ برطانیہ کو فریڈم کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔
پال برسٹونے کہا کہ حق خود ارادیت انسانوں کا بنیادی حق ہے۔ہمارے وزیروں کو بھارتی وزرا کے ساتھ اس مسئلے کو اٹھانا چاہیے۔
ڈیموکریٹک یونینسٹ پارٹی کی جیم شینن نے کہا کہ بھارت نے 144 کشمیری بچوں کو حراست میں لیا۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق بچوں کی حراست کے حوالے سے کسی قسم کی تحقیقات نہیں کی گئیں۔ کشمیر چیمبر آف کامرس کے مطابق آرٹیکل 370 کی منسوخی کے پہلے 3 ماہ میں 204 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں مذہبی آزادی پامال کی جا رہی ہے۔ برطانوی حکومت کو بین الاقومی مبصرین کی مقبوضہ علاقے تک رسائی کی کوشش کرنی چاہیے۔
لیبر پارٹی کے اسٹیفین کنوک نے کہا کہ کشمیر سب سے پرانا حل طلب مسئلہ ہے،گذشتہ 30 برس سے 95 ہزار سے زیادہ کشمیریوں کو قتل کیا جا چکا ہے،مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کو مانتے ہیں۔