امت رپورٹ:
مشرف دور میں براڈ شیٹ کے ساتھ معاہدہ کرتے وقت پیپرا رولز کو فالو کیا گیا تھا، نہ اس وقت کے اٹارنی جنرل اور برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمیشن کو اعتماد میں لیا گیا تھا۔ جس کا خمیازہ آج پاکستانی قوم سے ٹیکسوں کی مد میں وصول کیے جانے والے لاکھوں پائونڈ لٹانے کی شکل میں بھگتنا پڑا ہے۔ بیرون ملک عرصے سے پریکٹس کرنے والے بیشتر وکلا اور بعض ماہرین نے انتباہ کیا ہے کہ پاکستان کو اگلا ٹِیکا ریکوڈک کیس میں لگ سکتا ہے۔
واضح رہے کہ وزیراعظم عمران خان نے براڈ شیٹ معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی بنائی ہے۔ اسی نوعیت کا ایک تحقیقاتی کمیشن لگ بھگ سوا برس پہلے ریکوڈک معاملے کی انکوائری کے لیے بھی بنایا گیا تھا۔ لیکن تاحال اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوسکا ہے۔
مشرف دور میں اوورسیز کے مختلف معاملات دیکھنے والے ایک سابق عہدیدار نے بتایا کہ پاکستانی کرپٹ سیاستدانوں کی بیرون ملک جائیدادوں اور اکائونٹس کا پتہ لگانے کے لیے جب نیب کے پہلے چیئرمین جنرل محمد امجد نے برطانوی کمیشن ٹتھیان سے معاہدہ کیا تو ناصرف پیپرا رولز کو نظر انداز کیا گیا، بلکہ اس وقت کے اٹارنی جنرل اور برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمیشن کو بھی اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا۔
پیپرا رولز آپ کو یہ پلیٹ فارم فراہم کرتے ہیں کہ بیرون ملک کسی بھی قسم کی انفارمیشن حاصل کرنے کی خاطر کوئی کمپنی ہائر کرنے کے لیے متعلقہ ہائی کمیشن یا سفیر کو اشتہارات شائع کرنے کی ہدایت کی جائے۔ جس کے ذریعے مختلف کمپنیوں کے ذمے داران کے انٹرویوز کئے جائیں تاکہ ایک قابل ٹیم سلیکٹ کی جاسکے لیکن براڈ شیٹ کے معاملے پر اٹارنی جنرل آفس، فارن آفس اور برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمیشن کو مکمل اندھیرے میں رکھا گیا۔ کیونکہ مشرف اس معاہدے کو خفیہ رکھنا چاہتے تھے۔ لہٰذا ماورا آئین و قانون خاموشی کے ساتھ ایک غیر ملکی کمپنی سے معاہدہ کرلیا گیا۔
سابق عہدیدار کے بقول یہ بات تو اب میڈیا میں آچکی ہے کہ کس طرح ان ہی سیاستدانوں میں سے بعض کو بعد ازاں شریک اقتدار کرنے کے سبب براڈ شیٹ سے یکلخت معاہدہ ختم کرنا پڑا۔ جس پر برطانوی کمپنی عدالت چلی گئی۔
ان دنوں برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمیشن کے ڈپلومیٹک ونگ سے وابستہ ایک سابق افسر کے بقول اگرچہ ان کا لیگل ڈیپارٹمنٹ سے تعلق نہیں رہا۔ تاہم وہ اتنا ضرور جانتے ہیں کہ اگر براڈ شیٹ کے ساتھ معاہدہ ختم کرتے وقت ہائی کمیشن کو قانونی رائے دینے والے وکلا پینل سے ہی مشاورت کرلی جاتی تو شاید کوئی راستہ نکل آتا یا کم از کم اتنا مالی نقصان نہ ہوتا، جس کا سامنا آج پاکستان کو کرنا پڑا ہے۔ لیکن پاکستانی ہائی کمیشن کے لوگوں کو بھی اس معاملے کا اس وقت علم ہوا ، جب یہ معاہدہ ختم کیا گیا اور براڈ شیٹ نے عدالت جانے کا اعلان کیا۔
سابق افسر کے مطابق اگر کم از کم پاکستانی ہائی کمیشن کے ذمے داران کو درمیان میں ڈال کرعدالت سے باہر کوئی تصفیہ کرلیا جاتا تو تب بھی کم مالی نقصان کے امکان روشن تھے۔ لیکن بطور حکمراں مشرف خود کو مادر پدر آزاد سمجھتے تھے، لہٰذا وہ یہ معاہدہ ختم کرکے اس کے نتائج سے بے پرواہ اپنے دوسرے کاموں میں لگے رہے۔ اس مجرمانہ غفلت کی وجہ سے دوسری جانب براڈ شیٹ کا کیس مضبوط ہوتا گیا۔
سابق افسر کہتے ہیں کہ بدقسمتی سے بعد میں آنے والی حکومتوں نے بھی اس معاملے کو حل کرنے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ کیس کو لٹکایا جاتا رہا۔ اس کے نتیجے میں براڈ شیٹ کے سود کا پیسہ بڑھتا گیا۔ جبکہ موجودہ حکومت کا وطیرہ بھی یہی رہا۔ نتیجتاً پاکستان قوم کی خون پسینے کی کمائی ضائع کردی گئی۔
برطانیہ میں پاکستانی نژاد قانون داں ظفر علی کیو سی (کوئین کونسل) کے ساتھ کچھ وقت گزارنے والے ایک سینئر برطانوی قانون دان ، جو خود بھی کیو سی رہ چکے ہیں، بتاتے ہیں کہ جس کام کے لیے براڈ شیٹ کو لاکھوں پائونڈ دینے پڑے اور حکومت پاکستان نے گورے وکلا کو بھی بھاری فیسیں ادا کیں۔ اگر یہ کام برطانیہ میں مقیم پاکستانی سینئر وکلا کو دے دیا جاتا تو اب تک جتنا پیسہ حکومت پاکستان خرچ کرچکی ہے، اس میں سے دس فیصد پیسہ بھی نہیں لگتا۔
جبکہ یہ بھی امکان تھا کہ پاکستانی نژاد سینئر وکلا کا پینل وطن کی محبت میں یہ کام مفت میں یعنی بغیر فیس کرنے پرآمادہ ہوجاتا۔ کیونکہ ماضی میں ایسے کیس ہوئے ہیں، جب پاکستان نژاد وکلا نے بغیر فیس لیے پاکستانیوں کے مقدمات لڑے اور اس میں کامیابی حاصل کی۔ مذکورہ قانون دان کے مطابق برطانیہ میں لگ بھگ ڈھائی ہزار پاکستانی نژاد وکلا برسوں سے پریکٹس کر رہے ہیں۔ ان میں چار سے پانچ سو چوٹی کے وکلا ہیں۔ ان چوٹی کے وکلا میں سے ہی دوچار کو براڈ شیٹ والا معاملہ دے دیا جاتا، تو آج جس طرح اس کیس میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہو رہی ہے، اس سے بچاجاسکتا تھا۔ لیکن حکومت پاکستان نے لاکھوں پائونڈ کی فیس دے کر ہمیشہ گورے وکلا پر انحصار کیا اور اس کے باوجود بین الاقوامی سطح کے کیس ہارے۔ جبکہ قوم کا پیسہ بھی بے دردی سے لٹایا گیا۔ اس کی تازہ مثال براڈ شیٹ کیس ہے۔
پاکستانی نژاد سینئر قانون دان نے انتباہ کیا کہ اگر اسی روش کو برقرار رکھا گیا تو پھر ریکوڈک کیس میں بھی قوم کے اربوں روپے ضائع ہوسکتے ہیں۔ یہ کیس اہم مرحلے میں پہنچ چکا ہے۔ لیکن اس کے لیے جس سطح کی قانونی اور دیگر کوششیں کی جانی چاہئیں، اس کا فقدان دکھائے دے رہا ہے۔ ریکوڈک کیس ہارنے کی صورت میں پاکستان کو براڈ شیٹ کیس کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ نقصان کا اندیشہ ہے۔
واضح رہے کہ براڈ شیٹ کیس میں بھاری جرمانے کی ادائیگی سے قریباً تین ہفتے پہلے پاکستان کو بین الاقوامی محاذ پر ایک بڑا دھچکا لگا تھا، جب برٹش ورجن آئی لینڈز ہائی کورٹ نے ریکوڈک کیس میں کسی بین الاقوامی ثالث کو بینک گارنٹی فراہم کرنے میں ناکامی کے سبب بیرون ملک کچھ پاکستانی اثاثے منسلک کرنے کا آرڈر پاس کیا۔ اس حکم کے تحت پاکستان، برطانیہ کے اس جزیرے میں رجسٹرڈ اپنی آف شور کمپنیوں کے زیر انتظام اثاثے فروخت نہیں کرسکتا۔
ٹتھیان کاپر کمپنی نے اپنے جرمانے کی وصولی کے لیے ان اثاثوں کو ضبط کرنے کی استدعا کی تھی۔ تاہم بعد میں ورجن آئی لینڈ ہائی کورٹ نے جرمانے کی ادائیگی پر عمل درآمد مشروط طور پر روک دیا تھا۔ اور اپنے حکم میں کہا تھا کہ جرمانے کے پچیس فیصد مالیت کی گارنٹی اور فیصلے کی تاریخ تک کی سود کی رقم جمع کرائی جائے تاہم ڈیڈ لائن تک حکومت پاکستان یہ بینک گارنٹی جمع کرانے میں ناکام رہی تھی۔ ٹتھیان نے ابتدا میں تقریباً ساڑھے گیارہ ارب ڈالر ہرجانے کا دعویٰ کیا تھا۔ لیکن پاکستان اس رقم کو لگ بھگ چار ارب روپے تک محدود کرنے میں کامیاب رہا۔
اس معاملے سے منسلک ایک ذریعے نے بتایا کہ پاکستان اس وقت ٹتھیان کمپنی کے ساتھ عدالت سے باہر تصفیہ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ تاہم عدالت کے باہر کوئی تصفیہ ہو بھی گیا تو پھر بھی پاکستان کو دو، تین ارب ڈالر کا ٹیکا لگ سکتا ہے۔ اور یہ کہ پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت اس معاملے پر قانونی اخراجات کی مد میں پہلے ہی ایک کروڑ ڈالر خرچ کرچکی ہے۔ اس کیس میں ایک پاکستانی فرم کے علاوہ ارجنٹائن اور امریکہ کے وکلا کی خدمات لی گئی تھیں۔
ذریعے نے یہ بھی بتایا کہ پیپلز پارٹی کے دور میں ہونے والا ریکوڈک معاہدہ ایک ناقابل عمل پروجیکٹ تھا، بلکہ یہ پاکستان کو پھانسنے کا پلان تھا۔ پہلے یہ معاہدہ چلّی کی کمپنی سے کیا گیا تھا۔ معاہدے کے مطابق کمپنی نے ریکوڈک مقام سے مٹی نکال کر اس کا گارا بنانا تھا۔ بعد ازاں یہ گارا پانچ چھ کلومیٹر طویل پائپ لائن میں سے گزر کر گوادر جاتا۔ پھر گوادر سے اس گارے کو جہازوں میں بھر کر چلّی بھیجا جاتا۔ اس عمل کے لیے اربوں گیلن پانی کی ضرورت تھی۔ کیونکہ ریکوڈک اورگوادر میں پانی کی اتنی مقدار موجود ہی نہیں تھی۔ لہٰذا یہ ناقابل عمل منصوبہ تھا۔ چنانچہ چلّی نے یہ ایگریمنٹ آسٹریلین کمپنی کو بیچ دیا۔ اصولاً نیا ایگریمنٹ ہونا چاہئے تھا۔ تاہم نئے ایگریمنٹ کے بغیر ہی دوسرے کمپنی کو یہ ٹھیکہ دے دیا گیا۔ اس کی منظوری دینے والوں نے اپنی تجوریاں بھریں۔
براڈ شیٹ اور ٹتھیان کمپنی کیس کے معاملے پر برطانیہ میں قریباً پچیس برس سے پریکٹس کرنے والے معروف بیرسٹر امجد ملک کا کہنا ہے کہ جس طرح ان معاملات کو ڈیل کیا گیا، اس سے برطانیہ میں مقیم ان جیسے وکلا کا سر شرم سے جھک گیا ہے بالخصوص براڈ شیٹ کے معاملے میں انتہائی مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا گیا۔ لہٰذا اس معاملے کی تحقیقات کے لیے پارلیمانی کمیشن بنایا جانا ضروری ہے۔
بیرسٹر امجد ملک کا مزید کہنا تھا کہ براڈ شیٹ بنیادی طور پر مشرف کا ’’کاکا بچہ‘‘ تھا۔ لہٰذا ٹیکنیکل طور پر یہ سب کچھ مشرف کا کیا دھرا ہے جبکہ موجودہ حکومت نے اس معاہدے کو دوبارہ بحال کرنے کی کوشش میں ملکی مفاد کو بالائے طاق رکھ دیا اگر براڈ شیٹ کے معاملات پہلے ہی کلیئر کردیے جاتے تو اب جو بھاری جرمانے کے ساتھ سود کا پیسہ دینا پڑا، اس سے بچا جاسکتا تھا۔
ابتدا میں ہی عدالت سے باہر براڈ شیٹ سے کم پیسوں پر معاملات طے کرنے کے امکانات روشن تھے۔ براڈ شیٹ کو کہا جاسکتا تھا کہ مشرف سے غلطی ہوئی تھی۔ اس کی سزا پاکستانی قوم کو نہ دیں۔ لیکن بالخصوص موجودہ حکومت نے ہوشیاری دکھاتے ہوئے ایون فیلڈ پراپرٹی کو براڈ شیٹ معاہدے سے لنک کرنے کی کوشش کی لیکن یہ کوشش ناکام رہی اور بیرون ملک جگ ہنسائی بھی ہوئی۔
بیرسٹر امجد ملک کہتے ہیں کہ جو کام موجودہ حکومت نے براڈ شیٹ سے لینے کی کوشش کی، یہی کام انتہائی کم پیسوں پر واجد ضیا کے کزن سے لیا جاسکتا تھا۔ جیسا کہ مریم نواز کیس میں انہیں ہی ہائر کیا گیا تھا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ملک کے ساتھ بڑی زیادتی ہوئی۔ لہٰذا اس معاملے کو پس پشت نہیں ڈالا جانا چاہئے۔ بیرسٹر امجد ملک ان پاکستانی نژاد سینئر قانون دانوں میں شامل ہیں، جنہوں نے پاکستانیوں کے مفت کیس لڑنے کے لیے برطانیہ کے پاکستانی ہائی کمیشن میں بیس رکنی وکلا کا پینل بنایا تھا۔
اس حوالے سے وہ کہتے ہیں ’’برطانیہ میں جب ملیحہ لودھی ہائی کمشنر تھیں تو ہم نے بیس وکلا کا پینل بنایا تھا کہ جہاں بھی پاکستان کو ضرورت ہوگی، یہ وکلا فری میں کیس لڑیں گے۔ اس کیس کا حصہ ہونے کے ناطے میں نے دوہزار دس میں پاکستانی طالبعلموں کا مفت کیس لڑا۔ یہ کیس جیت کر پاکستان کو سرخرو بھی کیا۔ جبکہ مجھے اپنی جیب سے چھتیس ہزار پائونڈ خرچ کرنے پڑے تھے۔ اس وقت پاکستانی ہائی کمیشن میں قونصلیٹ جنرل کے فرائض انجام دینے والے مسرور جنجوعہ بھی اس کیس کے گواہ ہیں۔ براڈ شیٹ کیس میں اگر حکومت ان سے یا ان جیسے دیگر سینئر پاکستانی نژاد قانون دانوں سے مشاورت کرلیتی تو یہ سب مفت میں قانونی سپورٹ کرنے پر تیار ہوتے۔‘‘