اسلام آباد ہائی کورٹ نے پانچ سال سے لاپتہ شہری عمرعبد اللہ کی عدم بازیابی پر بڑا حکم دیتے ہوئے سابق سیکریٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ ضمیر حسین، سابق سیکریٹری داخلہ عارف خان، سابق آئی جی اسلام آباد جان محمد کو توہین عدالت کے شوکاز نوٹسز جاری کردیے۔
جسٹس محسن اخترکیانی نے ہدایت کی کہ سات دن میں جواب دیں پھرنہ کہنا آپ کو سنا نہیں گیا، نااہلی دکھانے پر چھ چھ ماہ جیل بھیجوں گا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے سنگل بنچ کے فیصلے پر عدم عمل درآمد کے خلاف توہین عدالت درخواست پر سماعت کی۔ عدالت نے موجودہ سیکرٹری داخلہ اور سیکریٹری دفاع کو بھی نوٹس جاری کرتے ہوئے رپورٹ طلب کرتے ہوئے کہا کہ اس عدالت کے فیصلہ پرعمل درآمد رپورٹ جمع کرائیں۔
سابق سیکریٹری داخلہ، سیکرٹری دفاع، سابق آئی جی اسلام آباد عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔ سابق سیکریٹری داخلہ عارف خان نے کہا کہ 2016 اور 2017 میں سیکرٹری داخلہ تھا مجھے اس کا کچھ معلوم نہیں۔
عدالت نے جوائنٹ سیکریٹری سے استفسار کیا کہ کیا آپ سیکریٹری داخلہ کو بتاتے نہیں کہ لاپتہ افراد سے متعلقہ کیا ہوتا ہے؟ آج ان سابق کے خلاف تو کل ان حاضر سیکریٹری داخلہ و دفاع کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے۔
سابق سیکریٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ ضمیر حسین نے کہا کہ اگست 2016 سے 2018 تک میں سیکرٹری دفاع رہا ہوں۔
عدالت نے ان سے کہا کہ اگر آپ نے ذمے داری نہیں لینی تو پھر وزیراعظم اس کے ذمے دار ہوں گے، پولیس یا اینٹلی جنس ایجنسیزکام نہیں کرتی تو کیا ہوگا، کوئی دہشت گرد بھی ہے تو اس کے خلاف کارروائی کریں،عدالتوں میں پیش کریں، اس کیس کی تو ہسٹری ہے کیا ہم نے جواب نہیں دینا یہ نظام کیسا چلے گا، اگر یہ چلتا رہا تو ایک دن لوگ عدالتوں سمیت سارے نظام کو آگ لگا دیں گے، اگر ادارے قانون سے ماورا کام کریں گے تو لوگ بھی ہتھیار اٹھا لیں گے، عدالتوں سمیت سارے جواب دہ ہیں کوئی کام نہیں کرتا تو وہ اس عہدے کا اہل نہیں، پولیس فائل دیکھی آئی جی سے لیکر سب نے نااہلی دکھائی، یہ فیملی کھڑی ہے ان کو کیا کہوں ادارے ناکام ہو گئے، کیا سیکریٹری دفاع اور سیکریٹری داخلہ صرف عہدے انجوائے کرنے کے لیے ہوتے ہیں۔
عدالت نے کہا کہ پاکستان کی خدمت قانون کے مطابق ہی ہونی ہے اس سے باہر کچھ نہیں، آپ کے ڈپارٹمنٹس ہیں اگر آپ ان سے پوچھ نہیں سکتے تو کون پوچھے گا، عدالتوں کو تو بڑا برا بھلا کہا جاتا ہے ہم تو کام نا کرنے والے ججز کے خلاف بھی کارروائی کرتے ہیں، کوئی دفاع ہو داخلہ ہو آئی جی ہو یا جج کام نہیں کرسکتا تو استعفی دے کر گھر جائے، جبری گمشدگی کمیشن بھی ایک مذاق ہے،کمیشن بھی ایجنسیز سے مل کرکام کرتا ہے، سیکریٹری بنتے ہوئے دل خوش ہوتا ہے لیکن کام کی باری تو ذمے داری لینے کے لیے تیار نہیں، ایک میسج جائے گا کسی کو تو سزا ہونی ہے کہیں سے تو کام شروع ہونا ہے، چھوٹا سا اسلام آباد ہے ہر مہینے کے چار پانچ لوگ لاپتہ ہو جاتے ہیں ان سے یہ بھی حل نہیں ہورہا،عدالت کے فیصلوں کے ان اداروں کے سربراہان کے لیے سنگین اثرات ہیں، پاکستان کی سیکورٹی کے لیے ادارے کام کر رہے ہیں شہید بھی انہی کے ہوتے ہیں۔
پولیس نے رپورٹ عدالت میں پیش کی کہ اسلام آباد میں لاپتہ افراد کے 43 کیسز زیرالتوا ہیں۔جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ لاپتہ افراد کمیشن مطلوبہ رزلٹس نہیں دے سکا پانچ پانچ سال کیسز پڑے رہتے ہیں، پولیس کے علاوہ ایجنسیز کا انویسٹی گیشن میں کوئی رول نہیں۔
رپورٹ میں یہی لکھا ہوا ہے کہ پولیس کی موجودگی میں لوگوں کی موجودگی میں اس شخص کو اٹھایا گیا، یہ اختیارات کے ناجائز استعمال کی واضح مثال ہے، وانا وزیرستان میں یہ یہ سیکیورٹی ادارے کام کر رہے ہیں اسی وجہ سے یہ ملک چل رہا ہے، ان اداروں کی بڑی قربانیاں ہیں ہم ان کی قدر کرتے ہیں، یہ لائن آف فائر پر بیٹھے ہیں وہ اس ملک کے لیے جانیں قربانیاں دے رہے ہیں۔
عدالت نے سیکریٹری داخلہ و دفاع سے جواب طلب کرتے ہوئے تین فروری تک سماعت ملتوی کردی۔