اسلام آباد: سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے ہیں کہ آئین کسی ممبر کو پارٹی لائن کے خلاف ووٹ دینے سے نہیں روکتا۔
سپریم کورٹ میں سینیٹ انتحابات سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت ہوئی۔ وکیل رضا ربانی نے کہا کہ معاملہ پارلیمنٹ میں آچکا ہے، حکومت بھی سمجھتی ہے کہ آئین میں ترمیم کرنا ہوگی، ایسا نہ ہو کہ دو آئینی ادارے آمنے سامنے آجائیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت ریفرنس واپس لے تو ٹھیک ورنہ عدالت اپنی رائے دے گی، آپ کی بات مان لیں تو آرٹیکل 186 غیر موثر ہو جائے گا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ریفرنس پر جواب دینے کے سو راستے ہوسکتے ہیں، ایک راستہ ہے کہ آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں، دوسرا راستہ ہے کہ آئینی ترمیم کرنا ہو گی، دونوں صورتوں میں عدالت اور پارلیمان آمنے سامنے کیسے ہوں گے؟، کیا آئین کی تشریح کرنا عدالت کا کام نہیں؟۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ اٹھارہویں ترمیم میں 101 آرٹیکلز ترمیم کیے گئے جبکہ میثاق جمہوریت میں کیا گیا وعدہ پورا نہیں کیا گیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ بدقسمتی سے ہمارے ملک کی سیاست ایسی ہی ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ اپوزیشن چاہتی ہے ایوان بالا میں ووٹ فروخت کرنے دیے جائیں، ہر لڑائی فتح کے لیے نہیں لڑی جاتی، یہ سیاست نہیں کچھ اور ہی چل رہا ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اپوزیشن اوپن بیلٹ پر متفق کیوں نہیں ہورہی؟۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اپوزیشن دس سال پہلے متفق تھی اب وعدہ پورا نہیں کر رہی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ عام انتخابات کے ووٹ بھی الیکشن کمیشن دھاندلی کے الزامات پر کھولتا ہے، ووٹ کے کاؤنٹر فائل پر بھی شناختی کارڈ نمبر لکھا ہوتا ہے۔
اٹارنی جنرل نے موقف اختیار کیا کہ اوپن بیلٹ میں پرچی کے پیچھے ووٹر کا نام لکھا ہوگا، اٹھارہویں ترمیم میں میثاق جمہوریت لکھنے والے کیوں بھول گئے، اٹھارہویں ترمیم اور میثاق جمہوریت کرنے والے عدالت اور تاریخ کو جوابدہ ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آئین میں الیکشن کا طریقہ کار درج نہیں تو پارلیمان قانون سازی کرسکتی ہے۔
اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ بل پارلیمنٹ پر ہو تب بھی عدالت ریفرنس پر رائے دے سکتی ہے، حسبہ بل کیس میں عدالت گورنر کو بل پر دستخط سے بھی روک چکی ہے۔
اعجاز الاحسن نے کہا کہ ہارس ٹریڈنگ اور ووٹوں کی خریدو فروخت روکنا الیکشن کمیشن کا کام ہے، آئین کسی ممبر کو پارٹی لائن کے خلاف ووٹ دینے سے نہیں روکتا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ الیکشن کمیشن تو خفیہ ووٹنگ کے حق میں ہے، الیکشن کمیشن نے الگ سے وکیل بھی مقرر کیا ہے۔ صدر، وزیراعظم اور وزرا اعلی کے انتحابات کا الیکشن ایکٹ میں کوئی ذکر نہیں، آئین میں صرف سینیٹ کی تشکیل کا ذکر ہے، اختیار استعمال کرنا آتا ہو تو الیکشن کمیشن بہت طاقتور ادارہ ہے، اوپن بیلٹ صرف شفافیت کے لیے چاہتے ہیں، ایم پی اے کو عوام کو بتانا چاہیے کہ اس نے ووٹ کس کو دیا۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا اوپن بیلٹ میں پارٹی لائن سے ہٹ کر ووٹ نہیں دیا جائے گا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ الیکشن کمیشن چاہتا ہے کسی طرح بھی ہو اوپن بیلٹ سے الیکشن نہ ہو، جے یو آئی اور جماعت اسلامی نے ریفرنس کی مخالفت کی ہے، کم از کم پارٹی کو علم ہو گا کس نے ووٹ کس کو دیا، سیاسی جماعتیں پارٹی لائن کے خلاف ووٹ دینے والوں کو ٹکٹ نہیں دیں گی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ووٹ فروخت کرنے کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ ثابت کرنا ہوگا کہ پارٹی کے خلاف ووٹ دینے والے نے ضمیر بیچا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے صدارتی ریفرنس کی مخالفت نہیں کی۔