متاثرین کو گھر دینے تک وزیر اعلیٰ اور گورنر ہاﺅس الاٹ کردیتے ہیں۔فائل فوٹو
متاثرین کو گھر دینے تک وزیر اعلیٰ اور گورنر ہاﺅس الاٹ کردیتے ہیں۔فائل فوٹو

اسٹیل ملزکو بند کرنے کا حکم آج ہی دینگے۔چیف جسٹس

پاکستان اسٹیل ملز ملازمین کی پروموشن سے متعلق کیس میں چیف جسٹس گلزاراحمد نے آج اسٹیل ملزکو بند کرنے کاحکم دینے کاعندیہ دیدیا۔

چیف جسٹس نے بیوروکریسی پر شدید اظہار برہمی کرتے ہوئے کہاکہ ملک میں کوئی وفاقی سیکریٹری کام نہیں کررہا ،تمام سیکریٹریز صرف لیٹربازی ہی کررہے ہیں جوکلرکس کاکام ہے،سمجھ نہیں آتا حکومت نے سیکرٹریزکو رکھاہی کیوں ہوا ہے؟،سیکریٹریز کے کام نہ کرنے کی وجہ سے ہی ملک کاستیاناس ہوا ہے،سیکریٹریزکو ڈر ہے کہیں نیب انہیں نہ پکڑ لے، پہلے بھی تو سیکرٹریز کام کرتے تھے اب پتا نہیں کیاہوگیا۔

نجی ٹی وی کے مطابق سپریم کورٹ میں اسٹیل ملز ملازمین کی پروموشن سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی،چیف جسٹس گلزاراحمد کی سربراہی میں بنچ نے کیس کی سماعت کی،چیف جسٹس پاکستان نے سٹیل ملز کی حالت زار کا ذمہ دار انتظامیہ کوقرار دیدیا۔

چیف جسٹس گلزاراحمد نے کہاکہ انتظامیہ کی ملی بھگت کے بغیر کوئی غلط کام نہیں ہوسکتا،کیا حکومت نے سٹیل ملز انتظامیہ کیخلاف کارروائی کی ؟۔

چیف جسٹس نے اسٹیل ملز انتظامیہ کی سخت سرزنش کرتے ہوئے کہاکہ ملز بند پڑی ہے تو انتظامیہ کیوں رکھی ہوئی ہے ؟،بند اسٹیل ملز کو کسی ایم ڈی یا چیف ایگزیکٹو کی ضرورت نہیں ،سٹیل ملز انتظامیہ اور افسران قومی خزانے پر بوجھ ہیں،ملازمین سے پہلے تمام افسران کو سٹیل ملز سے نکالیں ۔

وکیل پاکستان اسٹیل ملزنے کہاکہ تمام انتظامیہ تبدیل کی جاچکی ہے ،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ انتظامیہ تبدیل کرنے سے کیا ملز فعال ہو جائے گی ۔وکیل ملز نے کہاکہ سٹیل ملز کے روزانہ کے خرچے کو 2 کروڑ سے کم کرکے ایک کروڑ کردیاگیا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ آج سے کسی ملازم کو ادائیگی نہیں ہو گی ، جب ملز نفع ہی نہیں دیتی تو ادائیگیاں کس بات کی،ملازمین کو بیٹھنے کی تنخواہ تو نہیں ملے گی،وکیل ملازمین نے کہاکہ اسٹیل ملز ملازمین کام کرنے کو تیار ہیں،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ ملز میں بعض لوگوں نے بھرتی سے ریٹائرمنٹ تک ایک دن کام نہیں کیا،ملزکا212 ارب کا قرضہ کون اداکریگا؟۔

چیف جسٹس پاکستا ن نے کہاکہ مینجمنٹ اورورکرز کوادارے کا احساس ہی نہیں،مفت کی دکان سے جس کاجی چاہے لے جاتا ہے،اسٹیل ملز کو کسی بھی ورکریا افسر نے اپنا خون نہیں دیا،جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ ملز بند ہے لیکن ملازمین ترقیاں مانگ رہے ہیں ،سٹیل ملز کبھی ہماری معیشت کی ریڑھی کی ہڈی ہوتی تھی ۔چیف جسٹس گلزاراحمد نے کہاکہ ورکراپنے پیسے لینے کیلیے ٹریک پر لیٹ جاتے ہیں ۔وکیل ملازمین نے کہاکہ سٹیل ملز بند پڑی ہے تو حکومت چلائے۔

سیکرٹری صنعت و پیداوار عدالت میں پیش ہو گئے ،سیکریٹری نے کہاکہ سٹیل ملز کی نجکاری ایڈوائس مرحلے میں داخل ہو چکی ہے ،رواں سال ستمبر میں نجکاری کاعمل ہو جائےگا،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ 4 ہزارورکرز،212 ارب کے قرضے ایسے کون سٹیل ملز خریدے گا،چیف جسٹس گلزاراحمد نے کہاکہ اسٹیل ملز کے چیئرمین کہاں ہیں؟، وکیل اسٹیل ملز نے کہاکہ چیئرمین بیرون ملک ہیں۔

چیف جسٹس نے استفسارکیاکہ سٹیل ملز چیئرمین سرکاری خرچے پر ہیں؟، وکیل اسٹیل ملز نے کہا کہ چیئرمین اپنے خرچے پر باہر گئے تنخواہ بھی نہیں لے رہے، چیف جسٹس نے کہاکہ سیکریٹری صاحب بابو والا کام نہیں افسر والا کام کریں،چیف جسٹس نے آج سٹیل ملز کو بند کرنے کاحکم دینے کاعندیہ دیدیا

چیف جسٹس نے بیوروکریسی پر شدید اظہار برہمی کرتے ہوئے کہاکہ ملک میں کوئی وفاقی سیکریٹری کام نہیں کررہا،تمام سیکریٹریز صرف لیٹربازی ہی کررہے ہیں جوکلرکس کاکام ہے،سمجھ نہیں آتا حکومت نے سیکرٹریز کو رکھاہی کیوں ہوا ہے؟،سیکرٹریز کے کام نہ کرنے کی وجہ سے ہی ملک کاستیاناس ہوا ہے،سیکرٹریز کو ڈر ہے کہیں نیب انہیں نہ پکڑ لے، پہلے بھی تو سیکرٹریز کام کرتے تھے اب پتا نہیں کیاہوگیا۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ اسٹیل ملزکے بقیہ 3700 ملازمین کوآج فارغ کرنے کا حکم دینگے،اسٹیل ملزکے 437 میں سے 390 افسران کو بھی آج فارغ کریں گے،سب کو فارغ کرنے اوراسٹیل ملز کو تالا لگانے کا حکم دیں گے،عملی طورپراسٹیل ملز کا کوئی وجود نہیں۔