امت رپورٹ:
حکومت کی وعدہ خلافیوں پر برہم سرکاری ملازمین نے ایک بار پھر وفاقی دارالحکومت میں پارلیمنٹ کے مرکزی گیٹ کے سامنے غیر معینہ مدت کے دھرنے کا فیصلہ کرلیا ہے اوراس دفعہ تمام ملازمین کو کشتیاں جلاکر آنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ دوسری جانب ملازمین کے تیور سے حکومت خاصی پریشان ہے۔ اسے خوف ہے کہ کہیں پی ڈی ایم اس احتجاج کو ہائی جیک نہ کرلے۔ حکومت کے ان خدشات سے متعلق دستاویزی ثبوت ’’امت‘‘ کے پاس موجود ہیں۔
دھرنے کی تیاریوں میں مصروف اکسٹھ بڑے سرکاری اداروں اور محکموں کے مزدور رہنمائوں پر مشتمل آل پاکستان ایمپلائیز، پنشنرز، لیبر تحریک کے ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ پچھلے برس حکومت نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے، صوبائی اور وفاقی حکومت کے ملازمین کے گریڈ میں تفریق ختم کرنے، ڈیلی ویجز اور کنٹریکٹ ملازمین کو مستقل کرنے، نجکاری کے عمل کو ترک کرکے برطرف ملازمین کی بحالی سمیت جن چوبیس نکات پر عملدرآمد کا وعدہ کیا تھا۔ تین ماہ گزر جانے کے بعد ان میں سے ایک مطالبے پر بھی عمل نہیں کیا گیا۔
لیبر یونین رہنمائوں کے بقول ماضی میں بھی وہ مختلف حکومتوں کے خلاف احتجاج کرتے رہے ہیں اور ان کے قابل عمل مطالبات پر عمل بھی کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن موجودہ پی ٹی آئی حکومت نے دروغ گوئی، جھوٹ، دھوکے اور وعدہ خلافی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔
واضح رہے کہ ان سرکاری ملازمین نے گزشتہ برس اکتوبر میں ڈی چوک پر دھرنا دیا تھا۔ تاہم ملازمین کو رام کرنے کے لیے وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر تین وفاقی وزرا پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔ اس کمیٹی نے مذاکرات کے ذریعے چوبیس نکاتی مطالبات میں سے قابل عمل ڈیمانڈ مرحلہ وار تسلیم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ طے ہوا تھا کہ شدید مہنگائی کے پیش نظر سب سے پہلے مرحلے میں ملازمین کی تنخواہیں بڑھائی جائیں گی۔ اس وعدے اور یقین دہانی پر ملازمین نے دھرنا ختم کردیا تھا۔ لیکن بعد میں جو کچھ ہوا، اس کی اندرونی کہانی وعدہ خلافی کی کلاسک مثال ہے۔
سرکاری ملازمین سے مذاکرات کے لیے وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر تشکیل کردہ تین رکنی کمیٹی میں وزیر دفاع پرویز خٹک، وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن سے متعلق وزیراعظم کے مشیر ارباب شہزاد شامل تھے۔
ان اجلاسوں میں شریک ذرائع نے بتایا کہ پہلی میٹنگ میں مطالبات پر عملدرآمد کے طریقہ کار پر بات کی گئی۔ کمیٹی میں علی محمد خان اور ارباب شہزاد کو حکومت کی خواہش پر شامل کیا گیا تھا۔ چونکہ ان کے قلمدان ملازمین کے مسائل سے متعلق تھے۔ جبکہ وزیر دفاع پرویز خٹک کو لیبر یونین رہنمائوں کے مطالبے پر کمیٹی کا حصہ بنایا گیا تھا۔
ایک مزدور رہنما کے بقول اس کی وجہ یہ تھی کہ ماضی میں جب پرویز خٹک وزیراعلیٰ خیبر پختون تھے تو انہوں نے اپنے صوبے میں احتجاجی ملازمین کے اسی طرح کے مطالبات کو نہ صرف تسلیم کیا تھا۔ بلکہ ان پرعملدرآمد بھی کرایا تھا۔ لہٰذا لیبر یونینوں کے ذمہ داران کے نزدیک پرویز خٹک زبان کے پکے ہیں۔ کمیٹی میں ان کی شمولیت سے اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی گئی تھی کہ حکومت ملازمین کے ساتھ کسی قسم کا دھوکا نہ کر سکے۔ ذرائع کے مطابق حکومتی کمیٹی کے ارکان اور لیبر یونین رہنمائوں کے درمیان پہلی میٹنگ میں مطالبات پر عملدرآمد کا طریقہ کار طے کیا گیا اور اس کے منٹس بتائے گئے تھے۔
اس تحریری منٹس کی کاپی ’’امت‘‘ کے پاس موجود ہے۔ قریباً ڈیڑھ دو ہفتے بعد ہونے والی دوسری میٹنگ میں فیصلہ کیا گیا کہ پہلے مرحلے میں ملازمین کی تنخواہیں بڑھانے کے مطالبے پر عمل کیا جائے گا۔ اس موقع پر سیکریٹری فنانس اور ایڈیشنل سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن بھی موجود تھے۔ طے کیا گیا تھا کہ تیسری میٹنگ میں تنخواہوں کے اضافے کا اعلان کردیا جائے گا لیکن حیران کن طور پر گزشتہ ماہ جنوری میں شیڈول اس تیسری میٹنگ سے ارباب شہزاد اور وزیردفاع پرویز خٹک غائب تھے۔ صرف علی محمد خان آئے اور وہ پچھلی میٹنگ میں کئے گئے اپنے وعدے سے مکر گئے۔
وزیر مملکت نے کہا کہ دو چار روز میں ایک اور میٹنگ بلاکر تنخواہوں میں اضافے کا اعلان کردیتے ہیں۔ لیکن اس اعلان پر عمل جولائی دو ہزار اکیس کے بجٹ میں کیا جائے گا۔ جس پر لیبر یونین رہنمائوں نے احتجاج کیا کہ گزشتہ برس کے بجٹ میں بھی تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ نہیں کیا گیا تھا۔ اب ایک نیا لالی پاپ دیا جارہا ہے۔ لیکن پھر بھی درمیانی راستہ نکالنے کی خاطر لیبر یونین رہنمائوں نے کہا کہ یکم جولائی کے بجائے یکم جنوری سے تنخواہوں میں اضافے پر عمل شروع کردیا جائے تو یہ قابل قبول ہوگا لیکن اس سے انکار کردیا گیا۔
ذرائع کے مطابق لیبر یونین رہنمائوں کو حکومتی دھوکا دہی کا اندازہ ہوگیا تھا کہ اسی لئے دفاع کا قلمدان رکھنے والے ایک غیر متعلقہ وفاقی وزیر پرویز خٹک کو زور دے کر کمیٹی میں شامل کرایا گیا تھا۔ اب یہ خدشہ یقین میں بدل چکا تھا۔ چنانچہ لیبر یونین رہنما اجلاس سے اٹھ کر چلے آئے۔ ذرائع کے بقول احتجاجی تحریک کے ذمے داران کے دل میں یہ خلش ضرور تھی کہ پرویز خٹک نے ان کا اعتماد کیوں مجروح کیا۔ لہٰذا ایک سینئر ذمہ دار نے وزیر دفاع سے خود ملنے کا فیصلہ کیا، جن کا اپنا تعلق بھی خیبر پختون سے ہے۔
مذکورہ مزدور رہنما نے جب پرویز خٹک سے شکوہ کیا کہ حکومت اپنے وعدوں سے پیچھے ہٹ رہی ہے اور یہ کہ آپ خود بھی میٹنگ سے غائب ہوگئے تو اس پر وزیر دفاع نے آف دی ریکارڈ دل کھول کر رکھ دیا۔ پرویز خٹک کا کہنا تھا ’’میں میٹنگ میں اس لئے نہیں آیا کہ آپ لوگوں کو دیئے جانے والے حکومتی دھوکے کا حصہ نہیں بننا چاہتا تھا‘‘۔ یعنی وزیر دفاع کو پتہ چل گیا تھا کہ سرکاری ملازمین کے کسی ایک مطالبے پر بھی حکومت عمل کرنے کے موڈ میں نہیں۔ بلکہ انہیں لالی پاپ دے کر ٹرخایا جارہا ہے۔
ذرائع کے مطابق بعد میں اس کی مزید تفصیل بھی مزدور رہنمائوں کو حاصل ہوگئی۔ جس میں پتہ چلا کہ جب وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ اور ادارتی اصلاحات سے متعلق وزیراعظم کے مشیر ڈاکٹر عشرت حسین (سابق گورنر اسٹیٹ بینک) کو معلوم ہوا کہ حکومتی کمیٹی نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ تسلیم کرلیا ہے اور وہ تیسری میٹنگ میں اس کا اعلان کرنے جارہے ہیں تو انہوں نے کمیٹی کے ارکان کو دو ٹوک بتادیا کہ وہ اس قسم کا کوئی اعلان نہ کریں۔ اس پر حکومت عمل نہیں کرسکے گی۔ تاہم ملازمین کو آسرا دے کر انگیج رکھا جائے۔ تاکہ وہ دوبارہ احتجاج کے لیے اسلام آباد کا رخ نہ کریں۔ ذرائع کے مطابق جب اس کا علم پرویز خٹک کو ہوا تو انہوں نے میٹنگ سے غیر حاضر رہنے کو ترجیح دی کہ وہ اس حکومتی دھوکے کا حصہ نہیں بننا چاہتے تھے۔
ادھر حکومتی وعدہ خلافی پر برہم سرکاری ملازمین کے رہنمائوں نے اسلام آباد میں دوبارہ دھرنے کی تیاری شروع کردی۔ یہ دھرنا گزشتہ ماہ کی بارہ تاریخ سے شروع کیا جانا تھا۔ دوسری جانب یہ بھنک پڑنے پر حکومت نے ان ملازمین سے نمٹنے کی ہنگامی اسٹرٹیجی تیار کرلی تھی۔ ذرائع کے مطابق اس سلسلے میں اوپر کی سطح سے پولیس، اسپیشل برانچ اور مقامی انتظامیہ کو الرٹ کردیا گیا تھا۔
’’امت‘‘ کو دستیاب ایڈیشنل انسپکٹر جنرل پولیس، اسپیشل برانچ پنجاب کے دفتر سے آٹھ جنوری دو ہزار اکیس کو جاری ہونے والے ایک لیٹر کے ذریعے چار متعلقہ ڈی ایس پی حضرات، ڈی او راولپنڈی، ڈی او اسلام آباد، سی سی او اور دیگر متعلقہ محکموں کو الرٹ کردیا گیا تھا۔ لیٹر میں کہا گیا تھا کہ آل پاکستان کلرک ایسوسی ایشن، ٹیچرز، پروفیسرز و لیکچرارز، لیڈی ہیلتھ ورکرز، ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن، ینگ کنسلٹنٹ ایسوسی ایشن، پیرا میڈیکل اسٹاف ایسوسی ایشن، پنشنرز، لیبر یونینز، یوٹیلٹی اسٹورز، پی آئی اے، ریڈیو اور اس جیسے دیگر پریشر گروپ اسلام آباد میں بارہ جنوری کو دھرنا دینے کی تیاری کر رہے ہیں۔ تاکہ اپنے مطالبات کو منواسکیں لہٰذا متعلقہ افسروں کو ان پریشر گروپس کی تازہ ڈویلپمنٹ کے حوالے سے معلومات بھیجے جانے کی درخواست کی جاتی ہے۔
دوسری جانب وزیراعظم سیکریٹریٹ میں وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری محمد اعظم خان کو وزیر داخلہ شیخ رشید کی جانب سے بھی چھ جنوری دو ہزار اکیس کو ایک لیٹر بھیجا گیا۔ ’’امت‘‘ کو دستیاب اس خط میں وزیر داخلہ کی جانب سے کہا گیا تھا ’’اکسٹھ آرگنائزیشنز (سرکاری محکموں) نے بارہ جنوری کو اسلام آباد کے ریڈ زون کے اندر احتجاج کی کال دی ہے۔
وزیر دفاع پرویز خٹک کی قیادت میں ایک کمیٹی نے ان ملازمین کے رہنمائوں کے ساتھ تین ملاقاتیں کیں لیکن کوئی نتیجہ نہ نکل سکا۔ احتجاجی ملازمین نے اپنے مطالبات کی منظوری تک اپنے متعلقہ محکموں میں کام بند کرنے کا منصوبہ بھی بنایا ہے۔ ان مظاہرین کا دھرنا طویل ہوسکتا ہے اور یہ کہ اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم دھرنے کی قیادت کرنے والے مزدور رہنمائوں کو سپورٹ دے کر احتجاج کو مضبوط بناسکتا ہے‘‘۔ خط میں یہ تجویز بھی دی گئی تھی کہ وزیر خزانہ اور ان کی ٹیم مزدور رہنمائوں کے ساتھ فوری ملاقات کرے۔ اور ان کے مطالبات کے حوالے سے کوئی راستہ نکالا جائے۔ ساتھ ہی وفاقی وزیر داخلہ نے چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور چیف سیکریٹریز کو سخت ہدایت کی تھی کہ مظاہرین کو کسی صورت اسلام آباد میں داخل ہونے کی اجازت نہ دی جائے۔ اور یہ کہ مظاہرین کی اکثریت صوبہ پنجاب اور خیبر پختون سے آئے گی۔
ذرائع نے بتایا کہ ان اطلاعات کا علم ہونے پر مزدور رہنمائوں نے بارہ جنوری کو دھرنے کا فیصلہ تبدیل کرلیا۔ تاکہ حکومتی ممکنہ اقدامات کے پیش نظر پوری تیاری کے ساتھ اسلام آباد میں داخل ہوا جائے۔ اب اس دھرنے کے لئے سترہ فروری کی تاریخ طے کی گئی ہے۔ ان اکسٹھ سرکاری محکموں کے ملازمین کو آل پاکستان ایمپلائیز پنشنرز لیبر تحریک کو مزدور رہنما محمد اسلم خان لیڈ کر رہے ہیں۔
’’امت‘‘ کے رابطہ کرنے پر لیبر تحریک کے ممبر عارف شاہ اور رہبر محمد اسلم خان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کی پالیسیوں، سرکاری ملازمین اور محنت کشوں کے استحصال، نجکاری اور جبری برطرفیوں کے خلاف ڈی چوک اسلام آباد پر ہونے والا دھرنا تاریخی ثابت ہوگا۔ اس سلسلے میں ملک کے کونے کونے میں بھرپور تیاریاں جاری ہیں۔
ایک سوال پر عارف شاہ کا کہنا تھا ’’پچھلی بار ہم نے دھرنا ڈی چوک کے اس مقام پر دیا تھا جس کے سامنے بیریئر لگاکر پارلیمنٹ کو محفوظ بنایا گیا ہے۔ تاہم اس دفعہ ہم یہ جنگلہ پھلانگ کر عین پارلیمنٹ کے مرکزی دروازے کے سامنے دھرنا دیں گے۔ جبکہ اس بار حکومت کے لالی پاپ کو بھی قبول نہیں کیا جائے گا۔ جب تک مطالبات کی منظوری کا نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوجاتا، دھرنا جاری رہے گا۔ اس سلسلے میں ملک بھرکے لاکھوں ملازمین کو ہدایت کردی گئی ہے کہ وہ طویل دھرنے کا ذہن بناکر گھروں سے نکلیں۔ لہٰذا اپنے بستر، کھانا پکانے کا سامان، خیمے اور دیگر اشیائے ضروری ساتھ لے کر آئیں‘‘۔
عارف شاہ کے بقول ’’بدقسمتی سے پی ڈی ایم والے پیچھے رہ گئے ہیں۔ اور ملازمین ان سے آگے بڑھ چکے ہیں۔ کم از کم ان ملازمین کو دیکھ کر ہی پی ڈی ایم والے ہمت پکڑ لیں۔ تاہم ملازمین کا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں۔ وہ صرف اپنے حقوق حاصل کرنے کے لئے میدان میں اتر رہے ہیں‘‘۔ عارف شاہ نے یہ بھی بتایا کہ جن ملازمین نے دس فروری کو اسلام آباد میں دھرنے کا اعلان کیا ہے۔ انہیں بھی ہم اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کریں گے۔