نمائندہ امت
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی سری نگر ہائی وے پر حادثے میں جاں بحق نوجوانوں کے ورثا نے آج بروز جمعہ اسلام آباد کے تھانہ رمنا جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ جہاں حادثے کے ذمہ دار کشمالہ طارق کے بیٹے اذلان کے خلاف مقدمہ درج ہے۔ تاہم اس نے 16 فروری تک عبوری ضمانت حاصل کر رکھی ہے۔ مرحومین کے ورثا اور قریبی دوستوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر انصاف کی راہ میں رکاوٹیں حائل کرنے کی کوشش کی گئی تو وہ اسلام آباد کی جانب مارچ سمیت کوئی بھی احتجاجی آپشن اختیار کر سکتے ہیں۔
متوفی فاروق احمد کے ماموں شمریز نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ جمعرات کو چاروں نوجوانوں کی رسم قل ادا کر دی گئی ہے۔ رات کو چاروں خاندانوں کے معززین میٹنگ کریں گے۔ جس میں مقدمے کے حوالے سے لائحہ عمل تیار کیا جائے گا۔ اس سوال پر کہ جاں بحق ہونے والے چاروں نوجوان غریب خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ مقدمہ کے اخراجات وغیرہ کا کیا انتظام ہو گا؟۔ شمریز خان کا کہنا تھا کہ ’’ہم غریب ضرور ہیں۔ مگر انصاف کیلئے آخری حد تک جائیں گے۔ ہمیں چندہ کرنا پڑا یا معززین علاقہ کی مدد لینا پڑی۔ جو بھی ہو، ہم مظلوم خاندانوں کو انصاف دلانے کیلئے قانون اور انصاف کا ہر در کھٹکھٹائیں گے۔کوئی اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ ہمیں غریب سمجھ کر دبا لیا جائے گا یا انصاف سے محروم رکھا جائے گا۔ پہلے مرحلے پر ہم متعلقہ تھانے جا کر تفتیشی افسر اور دیگر حکام سے ملاقات کریں گے۔ ہم جاننا چاہتے ہیں کہ چار نوجوانوں کے قاتل مرکزی ملزم کو عبوری ضمانت کیسے مل گئی۔ اگلے مرحلے میں ہم وکیل کی خدمات بھی حاصل کریں گے۔ تاہم یہ سب کچھ مشاورت کے بعد ہوگا‘‘۔ ایک سوال پر شمریز خان نے بتایا کہ ’’اب تک کسی حکومتی ذمہ دار یا علاقے کے کسی منتخب نمائندے، ایم پی اے یا ایم این اے نے ہم سے رابطہ نہیں کیا۔ نہ ہی تعزیت کے لیے کوئی آیا ہے۔ حالانکہ یہ مانسہرہ کی تاریخ کا انتہائی المناک واقعہ ہے۔ لیکن ہمیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ کون ہمارا ساتھ دیتا ہے اور کون نہیں۔ اگر انصاف دلانے والی عدالتیں سب کے لیے ہیں تو ہمیں بھی اپنے حصے کا انصاف ضرور ملے گا‘‘۔
حادثے میں جاں بحق ہونے والے انیس ولد شکیل کے دوست عثمان نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’انیس کی شہادت سے اس خاندان پر قیامت ٹوٹ پڑی ہے۔ کیونکہ پورے خاندان کی امیدیں اسی سے وابستہ تھیں۔ انیس کے دو بھائی کوئی کام کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ جبکہ والد سرکاری ادارے میں مالی ہیں۔ جن کی تنخواہ سے گھر کا چولہا جلانا بھی ممکن نہیں۔ انیس بہت خوش تھا کہ وہ اے این ایف کے لئے میڈیکل سمیت ابتدائی ٹیسٹ کلیئر کر چکا تھا اور اب انٹرویو ہونا باقی تھا۔ اس انٹرویو کے لئے اس نے ہم سب سے دعا کرنے کو کہا تھا۔ مگر وہ دولت کے نشے میں دھت امیر زادوں کی سفاکی کی بھینٹ چڑھ گیا‘‘۔ عثمان کا کہنا تھا کہ ’’زخمی اور عینی شاہد اذان مجیب الرحمان کے بیان سے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ حادثے کی ذمہ دار گاڑی کشمالہ طارق کا بیٹا اذلان ہی ڈرائیو کر رہا تھا۔ اس سے زیادہ مستند گواہی کسی کی نہیں ہو سکتی۔ اب ایک طرف دولت اور اثر رسوخ کی طاقت ہے تو دوسری طرف غریب ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ انصاف کا ترازو کس طرح توازن قائم کرتا ہے۔ ابھی تو ہم حکومت وقت سے انصاف مانگ رہے ہیں۔ وزیراعظم نے بھی واقعے کا نوٹس لیا ہے۔ مگر دیکھنا یہ ہے کہ عملی طور پر کیا ہوتا ہے۔ اب تک کی صورتحال یہ ہے کہ مرکزی ملزم ضمانت پر ہے اور ڈرائیور کو ملزم بنا کر پیش کر دیا گیا ہے۔ ہم نے ہر صورت انصاف حاصل کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو ہم اسلام آباد کی طرف مارچ اور احتجاج کی کال بھی دے سکتے ہیں‘‘۔ ایک سوال پر عثمان کا کہنا تھا کہ ’’ہم اپنے حلقے کے ایم این اے، ایم پی اے اور دیگر اہم شخصیات سے رابطے کر رہے ہیں۔ تاکہ ضرورت پڑنے پر احتجاجی لائحہ عمل اختیار کیا جا سکے۔ اسی سرینگر ہائی وے پر چند روز پہلے اسامہ ستی کے ساتھ کتنا بڑا ظلم ہو چکا ہے۔ اگر ہمارے دوست چار شہید نوجوانوں کے خاندانوں کو انصاف نہ ملا تو ایسا احتجاج ہوگا جسے تاریخ یاد رکھے گی‘‘۔
واضح رہے کہ مانسہرہ سے پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی صالح محمد خان نے بھی جمعرات کو ایوان میں یہ معاملہ اٹھایا ہے۔ اور مظلوم خاندانوں کو انصاف کی فراہمی کا مطالبہ کیا ہے۔ جبکہ مانسہرہ سے سابق رکن قومی اسمبلی اور وفاقی وزیر سردار یوسف نے بھی متاثرہ خاندانوں کو انصاف دلانے کے لیے بھرپور کوششوں کی یقین دہانی کرائی ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پولیس کی جانب سے بار بار بلائے جانے کے باوجود واقعہ کا مرکزی ملزم اذلان اب تک تفتیش کے لیے پیش نہیں ہوا۔ جبکہ پولیس حکام نے معاملے کی تحقیقات کے لیے کشمالہ طارق اور ان کے شوہر وقاص خان کو بھی طلب کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔