علی مسعود اعظمی:
مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی حکومت نے ’فور جی‘ انٹرنیٹ سروس کو ڈیڑھ برس کی پابندی کے بعد بحال کردیا ہے۔ لیکن ساتھ ہی ایک ہزار سے زیادہ ڈیجیٹل مخبروں کی فوج بھی بھرتی کرکے کشمیریوں کیخلاف جاسوسی اور کریک ڈائون کا نیا پروگرام متعارف کروایا ہے۔ جس کے بعد کسی بھی کشمیری باشندے کی آن لائن سرگرمیوں کو ملک دشمن قرار دے کر گرفتار کیا جا سکے گا اور اس کیلئے مقرر کردہ آن لائن مخبروں کی رپورٹ ہی کافی سمجھی جائے گی۔ 4-G ٹیکنالوجی کی بحالی کی آڑ میں کشمیریوں کی ڈیجیٹل مخبری اور آن لائن نگرانی پر کشمیری صحافیوں، انسانی حقوق کے کارکنان اور عام کشمیریوں نے سوشل میڈیا پر تشویش کیا ہے اور مودی حکومت اور کشمیری سیکورٹی پر اظہار رائے کو دبانے کیلئے مخبروں کو استعمال کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ ’کشمیر والا‘ کے ایڈیٹر فہد شاہ نے وائس آف امریکا سے گفتگو میں کہا کہ کشمیری پولیس کے اس پروگرام سے ایسے عناصر کو کھلی چھوٹ مل جائے گی۔ جو سیاسی، نظریاتی یا مذہبی اختلاف اور ذاتی پسند یا ناپسند کی بنیاد پر عام کشمیریوں کو تنگ کرنا یا انہیں مشکل میں ڈالنا چاہیں گے۔ خود بھارتی حکومت بھی ایسے رضا کاروں کو کشمیریوں کیخلاف استعمال کر سکتی ہے۔ کشمیری صحافیوں نے انکشاف کیا کہ بھارتی حکومت کی جانب سے 4-G انٹرنیٹ سروس کی بحالی کیلئے 18 ماہ کے پابندی کے عرصہ میں مودی حکومت خاموش نہیں بیٹھی تھی۔ بلکہ اس نے پورے عرصہ میں ڈیجیٹل مخبروں کی ایک ٹیم بنائی اور اسے ٹریننگ دے کر سیف ہائوسز میںتعینات کر دیا ہے۔ ان کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ کشمیری سماجی رابطوں کی سائٹس پر خود کو بھارت مخالف اور تحریک آزادی کشمیر کا ہمدرد ظاہر کریں اور حریت پسندوں کی کھوج کیلئے ان سے باتیں اگلوائیں۔ اس کی رپورٹ متعلقہ سیکورٹی حکام کو دی جائے جس کے بعد ان کشمیریوں کیخلاف کارروائی کی جائے گی۔ نام نہ ظاہر کرنے والے کشمیری صحافی کا دعویٰ ہے کہ یہ بالکل وہی حکمت عملی ہے جو نائن الیون کے بعد امریکی ہوم لینڈ سیکورٹی، سی آئی اے اور ایف بی آئی ایجنٹس نے اپنائی تھی اور خود کو القاعدہ یا جہادیوں کا ہمدرد قرار دے کر امریکا کیخلاف جذبات رکھنے والے مسلمانوں کو ٹریس کرکے ان کیخلاف کارروائیاں کی تھیں۔ بھارتی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں اٹھارہ ماہ کی پابندی کے بعد اگرچہ 4-G انٹرنیٹ بحال کر دیا گیا ہے۔ لیکن اس بحالی کے پس پردہ کشمیری سماجی رابطوں کی سایٹس کے لاکھوں صارفین کی نگرانی یا مخبری کیلئے ایک ہزار آن لائن رضا کاروں یا ڈیجیٹل مخبروں کی تعیناتی بھی ممکن بنائی گئی ہے۔ وائس آف امریکا کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں پولیس، سائبر کرائم اور سیکورٹی یونٹس نے ایسے ڈیجیٹل مخبروں کو بھرتی کرنے کا کام مکمل کرلیا ہے۔ جو مقبوضہ وادی میں ڈیڑھ سال کی مدت کے بعد 4-G انٹرنیٹ سروس کی بحالی کے بعد چوبیس گھنٹوں کی بنیاد پر کشمیری انٹرنیٹ صارفین کی نگرانی کریں گے اور روزانہ کی بنیاد پر رپورٹ کریں گے۔ آن لائن نیوز پورٹل کشمیر والا کو دیئے گئے انٹرویو میں کشمیر پولیس کے ایس ایس پی کا دعویٰ ہے کہ اس اقدام سے سائبر کرائم کے بڑھتے واقعات کو روکنے اور شکایات کا بر وقت ازالہ کرنے میں مدد ملے گی۔ لیکن ساتھ ساتھ وہ انٹرنیٹ پر بھارت مخالف سرگرمیوں کو بھی مانیٹر اور کنٹرول کریں گے۔ بھارتی حکومت کے ناقدین کا کہنا ہے کہ مودی حکومت کشمیر میں ان رضا کاروں کی مدد سے حکومت مخالف کشمیریوں پر دباؤ بڑھانا اوراظہار رائے کو کچلنا چاہتی ہے۔ کشمیر پولیس کا دعویٰ ہے کہ ایسے سرکاری رضاکار آن لائن غیر قانونی اور ممنوعہ مواد سمیت دہشت گردی، بنیاد پرستی، بھارت مخالف سرگرمیوں اور تحریک آزادی سے منسلک عناصر کی نشان دہی بھی کریں گے۔ کشمیری میڈیا کا کہنا ہے کہ بھارتی انٹیلی جنس اور کشمیر پولیس کی نگرانی میں چلائے جانے والے اس ڈیجیٹل جاسوسی پروگرام کے نتیجے میں بھارتی مقبوضہ کشمیر حکومتی کریک ڈائون کے سنگین خدشات ایک مرتبہ پھر ابھر چکے ہیں۔ کشمیری تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اگرچہ بھارتی حکومت نے دنیا کو دکھانے کیلئے 4-G انٹرنیٹ سروس بحال کردی ہے۔ لیکن یہ بحالی ایک قسم کا نیا جال ہے۔ یہ ایک طرح کی سینسر شپ ہے۔ جسے مختلف انداز میں عائد کیا جائے۔ کشمیری وکیل ہابیل اقبال ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ کشمیریوں کی ڈیجیٹل نگرانی کا حکومتی پروگرام اصل میں انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ کے سیکشن 66 اے کے تحت لاگو کیا گیا ہے۔ جس کو کچھ عرصہ پہلے منسوخ کردیا گیا تھا۔ یاد رہے کہ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں انٹرنیٹ پر عائد طویل ترین پابندی کو انسانی حقوق کے کارکنوں نے ڈیجیٹل نسل پرستی اور اجتماعی سزا کے مترادف قرار دیا تھا۔
مقامی جریدے کشمیر ٹائمز کی ایڈیٹرانورادھا بھاسن کا کہنا ہے کہ حکومتی عہدیداروں کی جانب سے 4-G انٹرنیٹ کی بحالی پر شکریہ ادا کرنے کی ضرورت نہیں۔ وہ ہمیں خیرات نہیں دے رہے۔ ہمیں محرومی اور نقصان کا معاوضہ طلب کر نا چاہیے۔