رپورٹ:اقبال اعوان:
کراچی کے علاقے تین ہٹی میں واقع سید نور علی شاہ المعروف نوری بابا کا مزار جنات اورکالے جادو کے اثرات کے روحانی علاج کیلیے مشہور ہے۔
جہانگیر روڈ سے گزرتے ہوئے اکثراس مزارکے اندر سے خواتین کے چیخنے چلانے کی آوازیں سڑک تک آتی ہیں۔ مزار ویسے تو صبح 9 بجے سے رات 9 بجے تک کھولا جاتا ہے تاہم مزارکے مرکزی گیٹ پر پریشان حال خواتین چوبیس گھنٹے بیٹھی نظرآتی ہیں۔ یہ مزار جنات اور سفلی عمل سے نجات دلوانے، نظربد اور دیگر روحانی و ذہنی امراض کے علاج کیلئے بھی مشہور ہے۔
خواتین مزارکے احاطے میں قبر کی بائیں جانب مخصوص چار دیواری تک محدود ہوتی ہیں۔ عرصہ دراز سے اس مزارپرجادو ٹونے سے متاثر خواتین کو لایا جاتا ہے۔ یہ مزار محکمہ اوقاف کے زیر انتظام ہے۔ ایک یا دو ماہ بعد چندے کی دس پیٹیاں خالی کرنے کیلیے سرکاری افسران آتے ہیں تاہم مزار پر دو وقت کا لنگر، مخیر حضرات ہی زائرین کو فراہم کرتے ہیں۔سرکاری سطح پرعرس کے موقع پر تین روز 5,4,3 محرم الحرام کو سرکاری بریانی کی درجن بھر دیگیں لائی جاتی ہیں۔
دوران سروے دیکھا گیا کہ مزار پر کورونا بچائو اقدامات کیے گئے ہیں۔ لوگوں کو سینی ٹائزر گیٹ سے گزارا جا رہا ہے۔ خادمین، زائرین کو ماسک پہنا کر اندر بھجواتے ہیں۔ جبکہ سیکیورٹی اقدامات بھی بھرپور ہیں۔ واک تھرو گیٹ سے گزارنے سے قبل مرکزی دروازے پر بانس لگا کر تنگ راستے بنائے گئے ہیں اور جامہ تلاشی کیلیے مرد اور خواتین خدمت گار موجود ہوتے ہیں۔
مزار پر خفیہ کیمروں کا نظام بھی ہے۔ جس کو محکمہ اوقاف کے منیجر اسلم کا بیٹا ارسلان مانیٹرنگ کرتا ہے۔ مزار پر مرد حضرات فاتحہ خوانی کر کے واپس جا رہے تھے تاہم خواتین کا رش لگا تھا۔ مزار پر تعینات خواتین خدمت گار حاضری دینے والی خواتین کو مزارکے احاطے میں مخصوص حصے تک رکھتی ہیں۔ لڑکیوں اور بڑی عمر کی خواتین ادھرادھر بھاگتی اور دیواروں سے سر ٹکراتی نظرآتی ہیں۔ بعض اوقات ذہنی امراض میں مبتلا خواتین کو ڈاکٹرز کو دکھانے کے بجائے ادھرلا کر چھوڑا جاتا ہے۔ یہ خواتین غریب یا متوسط طبقے کی ہوتی ہیں۔
ناظم آباد نمبر ایک سے آنے والی خاتون فاطمہ نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ میں اپنی جواں سال بیٹی کو ادھر لائی ہوں۔ عامل اس پر دو سال سے جنات کا سایہ بتاتے ہیں۔ لاکھوں روپے عاملوں پر خرچ کر دیئے، ہر کوئی دلاسہ دیتا ہے۔ ہر عامل 10 ہزار سے 80 ہزار روپے تک بات کرتا ہے کہ چلہ کشی کروں گا۔ اپنی جان خطرے میں ڈالوں گا۔ وہ عجیب و غریب چیزوں کا مطالبہ کرتے ہیں۔ مثلاً طرح الو کی کلیجی یا چربی، ہدہد کا سر یا دیگر ایسی چیزیںہوتی ہیں جو عام لوگ نہیں لا سکتے ہیں۔ لہٰذا ان کی خریداری کیلئے منہ مانگی رقم وصول کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ رقم ختم ہونے پر پریشان ہو کر بیٹی کو یہاں مزار پرلا کر رکھا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ سات جمعرات تک مزار پرلا کر حاضری دلائی جائے۔ مزار کے باہر جعلی عاملوں کے ایجنٹ بھی سرگرم ہیں۔ وہ انتہائی پریشانی میں مبتلا افراد کو گھیرکررقم بٹورتے ہیں۔
مزار کے احاطے میں چراغ خانہ بھی موجود ہے، جہاں منت مانگنے والے سرسوں کا تیل چڑھاتے ہیں اور واپسی پر چراغوں میں استعمال ہونے والا تیل لے جاتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ تیل مریض کے سر پر لگاتے ہیں تو شفا ملتی ہے۔ مزار پر روزانہ سینکڑوں مرد و خواتین آتے ہیں۔
جمعرات کو مزار پر خواتین کی تعداد ایک ہزار سے بڑھ جاتی ہے اور اندر جگہ نہ ہونے پرباہر فٹ پاتھ اور سڑک کنارے تک خواتین نظرآتی ہیں۔ یہاں پر لنگر کا روزانہ اہتمام مختلف مخیر افراد کرتے ہیں۔ بعض ہوٹل والے بھی دال روٹی یا بریانی کی تھیلیاں بنا کر تقسیم کرتے ہیں۔ پریشان حال خواتین یا ان کے ساتھ آنے والی خواتین کو بعض اوقات بھوکا رہنا پڑتا ہے کہ مزارکے باہر لنگر تقسیم ہونے کے دوران سینکڑوں گداگر بھی قریبی جھگیوں سے آ جاتے ہیں۔
مزار پر موجود ارسلان کا دعویٰ تھا کہ جنات کے اتارے، کالے اور سفلی عمل سے نجات کا زیادہ تر کام مزار پر حاضری دینے سے ہو جاتا ہے۔ کوئی پریشان حال مزار کی جالیوں سے تالے، دھاگے، چوڑیاں، انگوٹھیاں باندھتا ہے کہ مراد پوری ہونے پر یہ اشیا کھول دیں گے۔
مزار کے خادم جمال حسن کا کہنا تھا کہ کورونا کی تباہ کاریوں بالخصوص معاشی پریشانیوں میں اضافے کے بعد ذہنی امراض میں مبتلا خواتین میں اضافہ ہو رہا ہے۔ کالے اور سفلی عمل کرانے والوں میں تیزی آ رہی ہے۔ پریشان خواتین اکثرعاملوں کے پاس جاتی ہیں۔ جبکہ مزار پرکئی لوگ اپنی خواتین کو بعض اوقات سارا دن چھوڑ جاتے ہیں کہ جنات کی حاضری ہوگی یا کالا عمل کرایا ہوا ہوگا تو پتا چل جائے گا۔ مزار پر فاتحہ خوانی کرنے یا قرآن پاک کی تلاوت کرکے واپس جانے والوں کی تعداد بہت کم ہوتی ہے۔