اسلام آباد: سپریم کورٹ نے اراکین اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز نہ دینے سے متعلق وزیر اعظم کا دستخط شدہ جواب طلب کرلیا۔
سپریم کورٹ میں وزیر اعظم کی جانب سے اراکین اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز دینے سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس پاکستان گلزا ر احمد کی سربرا ہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے کی ۔
وزیراعظم کے سیکرٹری کا خط عدالت میں پیش کرتے ہوئے اٹارنی جنرل پاکستان نے بتایا وزیراعظم نے کہا ہے اراکین اسمبلی کی ترقیاتی اسکیموں پر عمل آئین سے مشروط ہے، وزیر اعظم کو معلوم ہے کہ سرکاری فنڈز کا غلط استعمال نہیں کیا جا سکتا اور کسی رکن اسمبلی کو پیسہ نہیں دیا جائے گا۔
جسٹس قاضی فائز عیسی نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا خط میں عدالتی سوالات کے جوابات نہیں دیے گئے، لگتا ہے وزیراعظم نے عدالتی فیصلہ ٹھیک سے نہیں پڑھا، وزیراعظم نے شاید فنڈز دینے کے لیے دروازہ کھلا رکھنے کی کوشش کی۔
جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہاوزیراعظم یا اپنی بات پر قائم رہیں یا کہہ دیں ان سے غلطی ہوگئی،وزیراعظم اپنے سیکرٹری کے پیچھے کیوں چھپ رہے ہیں؟ سارے میڈیا نے خبر چلا دی اور وزیراعظم خاموش ہیں، وزیراعظم کے سیکریٹری اعظم خان کسی سیاسی جماعت کے سربراہ نہیں ہیں، آگے انتخابات بھی ہونا ہیں اس لئے وزیر اعظم کو اپنے دستخط سے لکھا جواب دینا چاہیے تھا۔
عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کرتے ہوئے وزیرا عظم اور سیکرٹری خزانہ کو ہدایت کی ہے کہ اپنے جواب میں فنڈز سے متعلق واضح موقف اختیار کیا جائے۔
دوسری جانب بلوچستان حکومت کی جانب سے جواب میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعلی سمیت کسی رکن اسمبلی کے پاس ترقیاتی فنڈز نہیں۔ کے پی کے حکومت نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ اراکین اسمبلی کے ترقیاتی فنڈز پہلے ہی ختم کیے جا چکے ہیں، وزیراعلی سمیت اراکین اسمبلی کا ترقیاتی فنڈز کی تقسیم میں کوئی کردار نہیں۔
پنجاب کی جانب سے جواب میں کہا گیا ہے کہ کسی ایم پی اے کو کوئی ترقیاتی فنڈ دیا نہ دینگے، قانون میں اراکین اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز دینے کی کوئی گنجائش نہیں۔
سپریم کورٹ نے سندھ حکومت سے بھی ترقیاتی فنڈز سے متعلق جواب مانگ لیا۔