ودیا ساگر کمار:
سماجی رابطوں کی عالمی مقبول سائٹ ٹوئٹر بھارتی حکومت کی دھمکیوں کے آگے ڈھیر ہوگئی۔ مودی حکومت کی جانب سے ٹوئٹر ملازمین کی گرفتاریوں اور بھاری جرمانوں کی دھمکی دی گئی تھی، جس پر ٹوئٹر نے پہلے سِکھ کسانوں کی حمایت کرنے والے 250 صارفین کے اکائونٹس بند کردیئے اور اب مزید 551 اکائونٹس معطل کردیئے ہیں۔
’’ٹیلیگراف انڈیا‘‘ نے بتایا ہے کہ ٹوئٹر نے سِکھ کسانوں کے احتجاج کے دوران محض ’’خدشات‘‘ کے تحت بھارتی وزارت الیکٹرانکس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دبائو پر کئی ہائی پروفائل اکاؤنٹس بھی معطل کردیئے ہیں۔ نشانہ بننے والوں میں میں اداکار، سیاستدان، ادیب، شاعر اور سماجی کارکنان بھی شامل ہیں۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے رہنما محمد سلیم سمیت سماج وادی پارٹی، کانگریس اور کئی دیگر اپوزیشن پارٹیوں کے رہنمائوں نے اپنا اکائونٹ بند ہونے کی خبر کی تصدیق کی ہے۔ سینکڑوں اکائونٹس کی بندش پر رد عمل دیتے ہوئے ٹوئٹر حکام نے کہا کہ بھارتی آئی ٹی وزارت کے حکم پر ان ٹوئٹر اکاؤنٹس کو بلاک کردیا گیا ہے۔
’’دکن کرونیکل‘‘ کے مطابق بھارتی حکومت نے ٹوئٹر ملازمین کو دھمکایا تھا کہ اگر انہوں نے حکم نہ مانا تو ان کو گرفتاری، مقدمات، جرمانوں اور سات سال تک قید کی سزا دی جاسکتی ہے۔ ادھر معطل اکائونٹس ہولڈرز اور کسان رہنمائوں نے ٹوئٹر اکائونٹس کی بندش کو سچ کا گلا گھونٹا قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مودی حکومت حقیقی آمریت کا ایک سلسلہ ہے۔
بھارتی میڈیا کا کہنا ہے کہ وزارت آئی ٹی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے گزشتہ ہفتے ٹوئٹر کو مودی حکومت کیخلاف تنقید اور انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ کے سیکشن 69 اے کے تحت ان تمام مخالف اکاؤنٹس کو بلاک کرنے کا حکم دیا تھا۔ لیکن اس وقت ٹوئٹر نے مودی حکومت کے احکامات ماننے سے انکارکردیا تھا۔ لیکن بعد ازاں ٹوئٹر نے مودی حکومت کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے اور 800اکائونٹس بند کردیے ہیں۔ ٹوئٹر نے اس بات کی بھی یقین دہانی کروائی ہے کہ باقی ماندہ اکائونٹس کو بھی جلد بند کردیا جائے گا، تاکہ مودی حکومت پر کوئی تنقید نہ کرسکے۔
ٹوئٹرکے ترجمان کی وضاحت میں کہا گیا ہے کہ بہت سارے ممالک کے پاس اپنے قوانین موجود ہیں جو ٹوئٹر اکاؤنٹس کے مواد پر نافذ ہوسکتے ہیں۔ ٹوئٹر نے گذشتہ ہفتے تصدیق کی تھی کہ اس نے 300 سے زیادہ اکاؤنٹس معطل کر دیئے ہیں۔ کیونکہ دارالحکومت دہلی میں کسانوں کی ٹریکٹر ریلی پرتشدد ہوگئی تھی۔
’’نیو انڈین ایکسپریس ‘‘نے لکھا ہے کسانوں کے دہلی میں احتجاج اور ٹریکٹر ریلی کے دوران ٹوئٹر اور بھارتی حکومت کے درمیان اختلاف رائے سامنے آنے کے بعد ملک میں سیاسی ہلچل پیدا ہوئی۔ خبر رساں ایجنسی روئٹرز نے بتایا ہے کہ مودی حکومت نے ٹوئٹر کے ملازمین کو جرمانے اور سات سال تک قید کی سزا کی دھمکی دی تھی۔ مودی حکومت نے ان احکامات میں یہ دلیل پیش کی کہ یہ ٹوئٹر ٹرینڈز اشتعال پھیلا رہے ہیں۔ اس طرح کسان احتجاج کے دوران مزید تشدد اور بدامنی پھیل سکتی ہے۔
واضح رہے کہ بھارتی حکومت کو نظم و ضبط نافذ کرنے کیلئے کمپیوٹر ذرائع کی کسی بھی معلومات کی عوام تک رسائی روکنے کا ظالمانہ اختیار ہے۔ اس قانون میں ایک ایسی شق شامل ہے کہ جس کے تحت ٹوئٹر سمیت کسی بھی سماجی سائٹ کے ملازمین کو حکومتی ہدایت کی تعمیل کرنے میں ناکام رہنے پر سات سال تک قید اور جرمانے کی سزا دی جا سکتی ہے۔ بڑے پیمانے پر کسانوں کے احتجاج کے دوران ٹوئٹر اور بھارتی حکومت کے درمیان تازہ ترین اختلاف رائے سامنے آنے کے بعد ملک میں سیاسی ہلچل پیدا ہوچکی ہے۔ ادھر لاکھوں بھارتی کسانوں نے گزشتہ تین ماہ سے بھارتی دارالحکومت کے آس پاس ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ یہ سِکھ کسان مودی حکومت کی جانب سے کی جانے والی زرعی اصلاحات کے مکمل خاتمہ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ نہیں خدشات ہیںکہ ان کو بڑی کارپوریشنز کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔