تنخواہیں مہنگائی کے تناسب سے بڑھائی جائیں ۔فائل فوٹو
تنخواہیں مہنگائی کے تناسب سے بڑھائی جائیں ۔فائل فوٹو

حکومت سرکاری ملازمین سے پھر ہاتھ کرگئی

امت رپورٹ
حکومت سرکاری ملازمین کے ساتھ ایک بارپھر ہاتھ کرگئی ہے۔ تنخواہوں میں اضافہ نہ ہونے کے خلاف احتجاج کرنے والے ملازمین کے ایک دھڑے آل گورنمنٹ ایمپلائز گرینڈ الائنس اور حکومتی کمیٹی کے مابین طے پانے والے معاہدے میں نہ صرف پنشنرز کو نظر انداز کردیا گیا ہے۔ بلکہ صوبائی ملازمین کو بھی محض آسرا دیا گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں احتجاجی ملازمین میں سخت بے چینی پائی جاتی ہے۔ خاص طور پر پنشنرز، لیڈی ہیلتھ ورکرز اور صوبائی ملازمین کی بڑی تعداد نے اب پندرہ فروری کو آل پاکستان ایمپلائیز پنشنرز لیبر تحریک کے دھرنے سے امیدیں لگالی ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے قائدین نے دھوکہ دیا۔ اور صرف وفاقی ملازمین کے مفاد کا خیال رکھا۔
واضح رہے کہ وزیر دفاع پرویز خٹک نے وزیر داخلہ شیخ رشید اور وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور کے ہمراہ نیوز کانفرنس میں مذاکرات کے دوران کئے گئے فیصلوں سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ایک سے لے کر انیس گریڈ کے وفاقی ملازمین کو پچیس فیصد ایڈہاک ریلیف دیا جائے گا۔ تاہم اس معاہدے کو حکومتی ہیرا پھیری قرار دیتے ہوئے گرینڈ الائنس کے ایک رہنما نے کہا کہ بالخصوص پنشنرز اور صوبائی ملازمین کے ساتھ بڑی ناانصافی کی گئی ہے۔ اس لئے وہ حکومتی وزرا کے ساتھ پریس کانفرنس میں شریک نہیں ہوئے۔

واضح رہے کہ جب پرویز خٹک اور دیگر وزرا معاہدہ کا اعلان کر رہے تھے تو ان کے ہمراہ گرینڈ الائنس کے سربراہ عبدالرحمن باجوہ کے سوا کوئی دوسرا قابل ذکر مزدور رہنما موجود نہیں تھا۔ گرینڈ الائنس کے اندرونی ذرائع کے مطابق قائدین تو پھر بھی آپس میں ملے ہوئے ہیں۔ لیکن کراچی اور کوئٹہ جیسے دور دراز علاقوں سے اسلام آباد میں احتجاج کے لیے آنے والے صوبائی ملازمین اور پنشنرز میں خاصا غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ طویل سفر اور سرد موسم میں دھرنے کی تکلیف اٹھانے کے باوجود سرکاری معاہدے میں ان کے لیے کچھ نہیں ہے۔ گریڈ ایک سے انیس تک کے وفاقی ملازمین کی تنخواہوں میں پچیس فیصد اضافے کا اعلان کر دیا گیا ہے جو حکم جولائی دو ہزار اکیس کے بجٹ میں بنیادی تنخواہ کا حصہ بنادیا جائے گا تاہم صوبائی ملازمین کے لیے صرف اتنا کہا گیا ہے کہ اس پیکج پرعملدرآمد کے لئے تمام صوبوں کی جانب سے سنجیدگی سے غورکیا جائے گا۔ یعنی یہ معاملہ صوبوں پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ اسی طرح معاہدے میں پنشنرز کو بالکل نظر انداز کردیا گیا ہے اور ان کا کوئی ذکر نہیں۔

ذرائع کے مطابق اسلام آباد کے احتجاج میں پچپن فیصد تعداد صوبائی ملازمین، پنشنرز اور لیڈی ہیلتھ ورکرز کی تھی جن کے مطالبات کو تسلیم ہی نہیں کیا گیا اور گرینڈ الائنس کے قائدین نے نوٹیفکیشن کے اجرا تک احتجاج ختم نہ کرنے کے موقف کو بھی سرنڈر کر دیا۔

جمعرات کی رات اس رپورٹ کے فائل کئے جانے تک معاہدے سے متعلق نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا گیا تھا۔ حکومت کے ساتھ پچھلے چند اجلاسوں میں شریک ایک ٹریڈ یونین رہنما کا کہنا ہے کہ جن یقین دہانیوں پراحتجاج ختم کیا گیا ہے۔ یہ باتیں تو چھ اکتوبر اور چودہ اکتوبر کے اجلاسوں میں بھی ہوتی رہی ہیں۔ اگران کو تسلیم ہی کرنا تھا تو پھر احتجاج کی کیا ضرورت تھی۔ وفاقی ملازمین کے لیے اعلان کردہ ایڈہاک ریلیف میں بھی ڈنڈی ماری گئی ہے۔

معاہدے میں کہا گیا ہے کہ ایڈہاک الائونس صرف ان وفاقی ملازمین کے لئے ہے۔ جو پہلے سے کوئی اسپیشل الائونس نہیں لے رہے ہیں۔ اس شرط کے سبب تمام محکمے الجھن میں رہیں گے کہ کن ملازمین کو یہ الائونس دیا جائے اور کسے نہ دیا جائے۔ کیونکہ بیشتر اداروں میں جاب ڈسکرپشن کے حساب سے اسپیشل الائونس دیا جاتا ہے۔ اس صورت میں حکومت کا اعلان کردہ ایڈہاک ریلیف سکڑ کر صرف وفاقی سیکریٹریٹ کے ملازمین تک رہ جائے گا۔

ٹریڈ یونین رہنما کے بقول اٹھارہویں ترمیم سے پہلے بھی صوبے ہی اپنے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کرتے چلے آئے ہیں۔ وفاقی حکومت کا بجٹ پہلے انائونس ہوتا ہے۔ اس بجٹ میں وفاقی ملازمین کی جتنی تنخواہیں بڑھائی جاتی ہیں۔ کم و بیش اسی حساب سے صوبائی حکومتیں اپنے بجٹ میں اضافہ کر دیتی ہیں۔ لہٰذا اٹھارہویں ترمیم کی مجبوری بیان کرکے صوبائی ملازمین کا معاملہ سر سے اتارا گیا ہے۔ حالانکہ ملک کے دو صوبوں میں پی ٹی آئی کی اپنی حکومتیں ہیں۔ جبکہ ایک صوبے میں اس کے اتحادی بیٹھے ہیں۔ گرینڈ الائنس کے قائدین کو چاہئے تھا کہ وہ معاہدے میں صوبائی ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کو بھی یقینی بناتے۔

ادھر حکومتی معاہدے کے اعلان کے باوجود مظاہرین کی ایک بڑی تعداد نے واپس جانے سے انکار کر دیا۔ جمعرات کی رات نو بجے اس رپورٹ کے فائل کرنے تک احتجاجی مظاہرین کی ایک بڑی تعداد ڈی چوک پر بیٹھی تھی۔ ان مظاہرین سے اظہار یکجہتی کے لئے جانے والے ایک مزدور رہنما نے بتایا کہ ڈھائی سے تین ہزار مظاہرین اب بھی یہاں موجود ہیں۔

ان میں سے بیشتر کا کہنا ہے کہ جب تک حکومت تنخواہوں میں اضافے کا نوٹیفکیشن جاری نہیں کردیتی، وہ واپس نہیں جائیں گے۔ رہنما کے بقول ان مظاہرین میں صوبائی ملازمین کی قابل ذکر تعداد بھی موجود ہے۔ جو لاہور، کراچی اور کوئٹہ سے وہاں پہنچے تھے۔ ان مظاہرین کو شکوہ ہے کہ گرینڈ الائنس کے قائدین کی جانب سے انہیں اتنی دور بلاکر نامراد واپس بھیجا جارہا ہے۔ تاہم مظاہرین کا کہنا تھا کہ وہ اب پندرہ فروری کے دھرنے میں شرکت کے حوالے سے مشاورت کر رہے ہیں۔

پنشنرز اور لیڈی ہیلتھ ورکرز سمیت بہت سے ملازمین کا خیال ہے کہ گرینڈ الائنس تو ان کے حقوق دلانے میں ناکام رہا۔ لہٰذا پندرہ فروری کے دھرنے میں شرکت کرکے مطالبات منوانے کی کوشش کی جانی چاہئے۔ اس بارے میں حتمی فیصلہ ہوگیا تو وہ لوگ واپس اپنے شہروں میں جانے کے بجائے دو تین روز اسلام آباد اور راولپنڈی میں اپنے عزیز و اقارب کے ہاں قیام کریں گے۔ تاکہ پندرہ فروری کو تازہ دم ہوکر دھرنے میں شرکت کرسکیں۔