اعمشؒ، (سلیمان بن مہران) حضرت حسینؓ کی شہادت کے دن یعنی عاشورہ 61ھ میں پیدا ہوئے۔ (طبقات ابن سعد ج 6 ص 229) اگرچہ اعمش کا آغاز غلامی سے ہوا، لیکن ان میں تحصیل علم کی فطری استعداد تھی، خوش قسمتی سے مرکز علم کوفہ میں ان کی نشوونما ہوئی، اس لئے آگے چل کر وہ کوفہ کی مسند علم و افتاء کی زینت بنے، ان کے علمی اور عملی کمالات پر تمام ارباب سیر و طبقات کا اتفاق ہے۔ ابن حجرؒ اور حافظ ذہبیؒ ان کو عابد، علامۃ الاسلام و شیخ الاسلام کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔ (تذکرۃ الحفاظ ج اول ص 138، و تہذیب، ج 4 ص 223) عیسیٰ بن یونسؒ کہتے تھے کہ ہم نے اور ہمارے قبل والے قرن کے لوگوں نے اعمشؒ کا مثل نہیں دیکھا۔ (تاریخ خطیب ج 9 ص 8) ان کو جملہ مذہبی علوم میں یکساں دستگاہ حاصل تھی، ابن عیینہؒ کا بیان ہے کہ اعمشؒ قرآن کے بڑے قاری، احادیث کے بڑے حافظ اور علم فرائض کے ماہر تھے۔ (تذکرۃ الحفاظ ج او ص 138 ) قرآن کے ساتھ ان کو خاص ذوق تھا اور علوم قرآنی میں وہ راس العلم شمار کئے جاتے تھے۔ (تہذیب التہذیب ج 4 ص 223) ہشیم کا بیان ہے کہ میں نے کوفہ میں اعمشؒ سے بڑا قرآن کا قاری نہیں دیکھا۔ (تاریخ خطیب ج 9 ص 6) قرآن کا مستقل درس دیتے تھے، لیکن آخر عمر میں کبر سنی کی وجہ سے چھوڑ دیا تھا، لیکن شعبان میں تھوڑا قرآن ضرور سناتے تھے، قرات میں وہ ابن مسعودؓ کے پیرو تھے، ان کی قرات اتنی مستند تھی کہ لوگ اس کے مطابق اپنا قرآن درست کرتے تھے۔ (ابن سعد ج 6 ص 239)
حدیث رسولؐ میں ان کے معلومات کا دائرہ وسیع تھا، حافظ ذہبیؒ انہیں شیخ الاسلام لکھتے ہیں، ابن مدائنیؒ کا بیان ہے کہ امت محمدیہؐ میں چھ آدمیوں نے علم (حدیث) کو محفوظ کیا، مکہ میں ابن دینارؒ، مدینہ میں زہریؒ، کوفہ میں ابو اسحٰقؒ اور اعمشؒ اور بصرہ میں قتادہؒ اور یحییٰ بن کثیرؒ نے۔ (تہذیب التہذیب ج 4 ص 223) امام اعمشؒ کی مرویات کی تعداد ہزاروں تک پہنچتی ہے، ابن عیینہ کے بیان کے مطابق ان کی تعداد تیرہ سو ہے۔ (شذرات الذہب ج اول ص 22) اور بعض دوسری روایات کے مطابق چار ہزار، محدث زہری اہل عراق کے علم کے قائل نہ تھے،
اسحق بن راشد نے ایک مرتبہ ان سے کہا کہ کوفہ میں اس کا ایک غلام ہے، جس کو چار ہزار حدیثیں یاد ہیں، زہری نے تعجب سے پوچھا چار ہزار؟ اسحٰق نے کہا ہاں چار ہزار، اگر آپ کہیں تو میں اس کا کچھ حصہ لا کر آپ کے سامنے پیش کروں، چنانچہ نے انہوں نے اعمش کی مرویات کا کچھ حصہ ان کے سامنے پیش کیا۔ زہری اس کو پڑھتے جاتے تھے اور حیرت سے ان کا رنگ بدلتا جاتا تھا، مجموعہ ختم کرنے کے بعد بولے خدا کی قسم اسے علم کہتے ہیں، مجھے یہ نہ معلوم تھا کہ کسی کے پاس اتنا علم محفوظ ہو گا۔ شعبیؒ کہتے تھے کہ حدیث میں مجھ کو جو تشفی اعمشؒ سے ہوئی، وہ کسی سے نہیں ہوئی۔ (تاریخ خطیب جلد 9 ص 10) حضرت ابن مسعودؓ کی احادیث خصوصیت کے ساتھ ان کے حافظہ میں زیادہ محفوظ تھیں، قاسم بن عبدالرحمن کہتے تھے کہ کوفہ میں اعمش سے زیادہ ابن مسعودؓ کی احادیث کا جاننے والا نہیں ہے۔ ان کی مرویات کیفیت کے اعتبار سے بھی اعلیٰ درجہ کی تھیں، چنانچہ وہ اپنی صداقت اور روایتوں کے معیار کی بلندی کے اعتبار سے مصحف کہے جاتے تھے۔ (تذکرۃ الحفاظ ج اول ص 138) ابن عمارؒ کہتے تھے کہ محدثین میں اعمشؒ سے زیادہ ثقہ کوئی نہیں۔ (تہذیب ، التہذیب ج 4 ص 223)اس علم کے باوجود روایت حدیث میں بڑے محتاط تھے اور زیادہ حدیث بیان کرنا اچھا نہ سمجھتے تھے، لوگوں سے کہتے تھے کہ جب تم لوگ (حدیث سننے کیلئے) کسی کے پاس جاتے ہو تو اس کو جھوٹ بولنے پر آمادہ کرتے ہو، خدا کی قسم یہ لوگ اشر الناس ہیں۔