حضرت امیر المومنین عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ امراء کے انتخاب میں بڑی احتیاط سے کام لیتے تھے۔ وہ ایسے لوگوں کو منتخب کرتے تھے، جو قناعت، پاک بازی اور مسلمانوں کی خدمت کے جذبے میں آپ کے معیار پر پورے اترتے تھے۔ وہ جن چیزوں کا حکم دیتے یا جن امور سے منع کرتے، پہلے خود ان کی پابندی کرتے تھے۔ وہ اپنی قوم مسلم کو فوائد سے بہرہ ور کرنے میں پیش پیش رہتے۔ اْمتِ مسلمہ کے فائدے کو حکمران کے ذاتی فائدے پر ترجیح دیتے تھے۔
آپؓ کے مقرر کردہ بہت سے عامل آپ کے قشِ قدم پر چلتے تھے، چنانچہ وہ پیوند لگا ہوا اون کا لباس پہنتے تھے۔ جو کی روٹی کھاتے اور دراز گوش کی پشت پر ٹاٹ ڈال کر سواری کرتے تھے۔
ذیل میں ہم حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کے مقرر کردہ چند عاملوں کا تذکرہ کریں گے۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک دن پروگرام بنایا کہ ابوعبیدہ بن الجراح کے گھر جا کران سے ملاقات کریں۔ اس وقت ابو عبیدہ مسلمانوں کے وزیر مال تھے۔ انہوں نے کہا: امیرالمومنین ! مجھے یہ بات پسند نہیں ہے کہ آپ کی آنکھوں کے پیمانے چھلک پڑیں۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اصرار کرتے ہوئے کہا کہ میں تم سے تمہارے گھر میں ضرور ملاقات کروں گا۔ جب فاروقِ اعظم، ابوعبیدہ کے گھر میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ ان کے پاس ایک جبہ، بکری کی ایک کھال، ایک کھانے پینے کا اور دوسرا وضو کرنے کا برتن تھا۔ اس کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ انہیں ایسا گھر دکھائی دیا جیسے وہ غریب ترین مسلمان مسلمان کا گھر ہو۔
فاروقِ اعظم کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں۔
حضرت ابوعبیدہ نے کہا:
امیرالمومنین ! میں نے آپ سے نہیں کہا تھا کہ میں آپ کی آنکھوں سے بہنے والی آنسوؤں کی برکھا نہیں دیکھنا چاہتا۔
اللہ تعالی ان طیب و طاہر نفوس قدسیہ پر رحمت و رضوان کی بارشیں نازل فرمائے۔ بے شک وہ اقوامِ عالم کے لیے عظمتوں کے جگ مگاتے ہوئے مینار تھے۔
عمال حکومت کیلئے حضرت عمر فاروق کی ہدایات بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ جب اپنے گورنروں کو کس جگہ بھیجتے تو انہیں درج ذیل ہدایات جاری کرتے تھے:
تم ترکی گھوڑے پر سوار نہ ہونا، چھنے ہوئے آٹے کی روٹی نہ کھانا، باریک کپڑا نہ پہننا، لوگوں کی حاجتوں کے آگے اپنے دروازے بند نہ کرنا۔ اگر تم نے ان ہدایات کی خلاف ورزی کی تو تم سزا کے مستحق ہو گئے۔
پھر انہیں الوداع کہنے کیلئے ان کے ساتھ نکلتے اور انہیں کہتے، میں نے تمہیں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے بالوں اور ان کے چمڑوں پرحاکم مقرر نہیں کیا، لہٰذا تم عربوں کو کوڑے مار کر ذلیل نہ کر دینا اور ان کو یکجا جمع کرکے فتنے میں نہ ڈال دیا (یعنی کسی نہ کسی محاذ پر مصروف رکھنا، بے کار یکجا رہنے سے فتنے جنم لیں گے)۔
(من نفحات الخلود)