کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت نے لیاری کے گینگسٹر عزیر بلوچ کو مزید 3 مقدمات میں ناکافی ثبوت پر بری کردیا۔
پیپلزپارٹی کے کئی رہنماؤں سے تعلقات رکھنے والے گینگسٹر عزیر بلوچ کیخلاف لیاری آپریشن کے دوران پولیس پر حملے کے الزام میں مقدمات درج کئے گئے تھے۔
انسداد دہشت گردی عدالت نے ناکافی ثبوت پر عزیر بلوچ کو مزید 3 مقدمات میں بری کردیا، جس کے بعد وہ مجموعی طور پر 9 مقدمات میں بری ہوگئے۔
جن مقدمات سے عزیر بلوچ کو بری کیا گیا ان میں انسداد دہشت گردی عدالت کے 4 مقدمات بھی شامل ہیں۔
عزیر بلوچ پر تقریباً 100 افراد کے قتل، بھتہ خوری، اغواء برائے تاوان، ناجائزہ اسلحہ سمیت مزید 49 مقدمات زیر التواء ہیں۔
چند روز قبل انسداد دہشت گردی عدالت میں تاجر کے بیٹے کے اغواء اور قتل کے مقدمے کی سماعت کے دوران پولیس سب انسپکٹر نے عزیر بلوچ کو بطور اغواء کار شناخت کرلیا تھا۔
گواہ کا اپنے بیان میں کہنا تھا کہ عزیر بلوچ نے تاجر کے بیٹے کو اغواء کیا اور تاجر سے تاوان کی رقم طلب کی۔ لڑکے کو اس کے والد کی جانب سے تاوان کی رقم ادا نہ کرپانے پر قتل کردیا گیا تھا۔
عزیر بلوچ کو رینجرز نے 30 جنوری 2016ء کو حراست میں لیا تھا، ایک بیان کے مطابق لیاری کے گینگسٹر نے قتل، بھتہ خوری، زمینوں پر قبضوں، 14 شوگر ملوں پر غیر قانونی قبضوں، علاقہ مکینوں کو ہراساں کرنے اور اسلحہ کی خریداری سمیت مختلف مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا تھا، تاہم بعد ازاں وہ اپنے اعترافی بیانات سے مکر گیا تھا۔
رینجرز نے اپریل 2017ء میں عزیر بلوچ کو جاسوسی اور غیر ملکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو معلومات فراہم کرنے کے الزامات پر پاک فوج کے حوالے کردیا تھا، کور 5 نے عزیر بلوچ کو تین سال بعد 6 اپریل 2020ء کو پولیس کے سپرد کردیا تھا۔