وجیہ احمد صدیقی:
مصر کی سوئز کنال اتھارٹی کے سربراہ اسامہ ربیع نے متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان پٹرول پائپ لائن پروجیکٹ ایلات اشکیلون Eilat-Ashkelon پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے کہ اس سے نہر سوئز کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اس منصوبے کے ذریعے اسرائیل، اماراتی پٹرولیم مصنوعات کو اشکیلون کی بندر گاہ کے راستے یورپی منڈی میں بھیج سکے گا۔ مصری ٹی وی صدالبلاد کو انٹرویو دیتے ہوئے ربیع نے کہا کہ وہ نہایت سنجیدگی سے اس منصوبے کا جائزہ لے رہے ہیں۔ کیونکہ اس منصوبے کے منفی اثرات نہر سوئز میں ہونے والی جہاز رانی پر ہوں گے اور وہاں سے جہازوں کا گزرنا مشکل ہوجائے گا۔ اس پائپ لائن کے بچھانے سے جہازوں کے ٹریفک میں 16 فیصد تک کمی آجائے گی۔ ربیع کے مطابق مصر، چین کے ساتھ ایک بڑے منصوبے میں شراکت دار ہے۔ چین کے ساتھ منصوبے میں تین راستے اختیار کیے جائیں گے زمینی، فضائی اور سمندری۔ یہ روٹس شاہراہ ریشم اور نہر سوئز سے گزریں گے۔ یہ منصوبہ اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے پروجیکٹ کو ختم کر دے گا اور انہیں نہر سوئز کی جگہ اپنے منصوبے کے لیے دوسرا راستہ تلاش کرنا ہوگا۔ گزشتہ سال اکتوبر میں اسرائیل کی ریاستی کمپنی یوروپ ایشیا پائپ لائن اور متحدہ عرب امارات میں قائم میڈ ریڈلینڈ برج MED-RED Land Bridge کمپنی نے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ جس کے تحت ایلات اشکیلون پائپ لائن بحیرہ احمر سے ایلات شہر سے اشکیلون کی بندرگاہ تک بحر روم سے گزر کر پہنچے گی، تاکہ اماراتی تیل یورپ کو پہنچایا جاسکے۔ یہ نہایت ہی خفیہ منصوبہ تھا ۔ان دونوں کمپنیوں نے یہ منصوبہ بنایا کہ وقت بچانے کے لیے یہ پائپ لائن پل کے ذریعے نہر سوئز تک پہنچے گی اور اس منصوبے پر 800 ملین ڈالر خرچ کیے جائیں گے۔ اسرائیلی کمپنی کا منصوبہ ہے کہ لاکھوں ٹن پیٹرولیم مصنوعات اس راستے سے گزریں گی۔ جبکہ مصر کی آمدنی کا تمام تر انحصار نہر سوئز پر ہے۔ اسی کے ذریعے اسے بڑے پیمانے پر زرمبادلہ حاصل ہوتا ہے۔ اگر وہاں سے اسرائیلی اور اماراتی پائپ لائن گزرے گی، تو مصر کی آمدنی میں کمی آئے گی ۔ مصر کے عوام بھی اسامہ ربیع کے موقف کی حمایت کررہے ہیں۔ اس سال جنوری میں سوئز کنال اتھارٹی نے بتایا تھا کہ گزشتہ سال اسے نہر سوئز سے 5.61 ارب ڈالر کی آمدنی ہوئی۔ مصر کے براہ راست تین بڑے ذرائع آمدن ہیں۔ نہر سوئز، سیاحت اور بیرون ملک مصری باشندوں کی بھیجی ہوئی رقوم ۔ کورونا وائرس کی وجہ سے سیاحت کی آمدن بھی کم ہوئی ہے اور بیرون ملک کام کرنے والے مصری بھی واپس آگئے ہیں۔ مصر کے ذرائع آمدنی پر اسرائیل جس طرح سے شب خون مار رہا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ سال مصر کے ’’رمضان 2020‘‘ ٹیلی وژن کی ایک سیریز ’’النہایہ‘‘ (خاتمہ) پر اسرائیلی وزارت خارجہ نے اعتراض کیا تھا۔ اس ٹی وی سیریز میں اسرائیل کا ایٹمی حملے میں خاتمہ دکھایا گیا تھا۔ ٹی وی سیریز میں دکھا یا گیا کہ ایک اسلامی ملک جو ایٹمی قوت کا مالک ہے، وہ اسرائیل پر ایٹمی حملہ کرتا ہے اور اسرائیل ختم ہوجاتا ہے۔ اسرائیل کی طرف سے یہ اعتراض اپریل2020ء میں کیا گیا اور پھر اکتوبر 2020ء میں مصر کی اقتصادیات پر اماراتی اسرائیل پائپ لائن منصوبے کے ذریعے حملہ کیا گیا۔ مغرب اور اسرائیل میں جب اسلام اور اس سے متعلق مقدس ہستیوں کو تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو اسے آزادی اظہار کا نام دے کر مسلمانوں کا منہ بند کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لیکن مصری ٹیلی وژن سیریز میں اسرائیل کے خاتمے کا منظر دکھانے پر اسرائیلی وزارت خارجہ نے کہا کہ یہ مکمل طور پر افسوس ناک اور ناقابل قبول ہے۔ ’’النہایہ‘‘ کی پہلی قسط میں 2120ء کا منظر دکھا یا گیا ہے کہ ایک بڑی جنگ کے بعد وہ یروشلم کو آزاد کرالیا گیا ہے۔ اسرائیلی وزارت خارجہ کے اعتراض کے جواب میں سیریز کے مصنف امر سمیر عطف نے کہا تھا کہ ہم نے تو سائنس فکشن کا ایک تفریحی ڈرامہ لکھا ہے، اس میں تو کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ اس پر اسرائیلی رد عمل کی میں بالکل پرواہ نہیں کرتا۔ ’’النہایہ‘‘ کو رمضان کے مہینے میں پیش کیا گیا تھا۔ اس ٹی وی سیریز پر امریکا کی جانب سے بھی تنقید کی گئی تھی۔ سائنس فکشن کی اس سیریز میں ایک کمپیوٹر انجینئر ایسی دنیا میں رہتا ہے جہاں روبوٹس کی اکثریت ہے اور انہیں کلون کیا گیا ہے۔ سیریز میں استاد بتاتا ہے اسرائیل سے تمام یہودی فرار ہوکر یورپ میں اپنے اپنے ملکوں میں چلے گئے ہیں۔ ایک ہولو گرافک نقشے میں امریکا کو بھی تقسیم ہوتا ہوا دکھایا گیا ہے اور استاد کہتا ہے کہ امریکہ بھی صہیونی ریاست کا سب سے بڑا سرپرست تھا۔ اس سیریز کو مصر سب سے بڑی پروڈکشن کمپنی سنرجی Synergy نے تیار کیا تھا جس کے مصری حکومت کے ساتھ نہایت ہی اچھے تعلقات ہیں۔ امریکہ اور اسرائیل کی تنقید کے بعد یو ٹیوب سے اس سیریز کی پہلی قسط ہٹا لی گئی ہے۔