امت رپورٹ:
پی ٹی آئی کے گرد فارن فنڈنگ کیس کا گھیرا تنگ ہونے کے ساتھ ساتھ اس کیس کے پٹیشنر اکبر ایس بابر کو مختلف آفرز پر مبنی پیغامات میں تیزی آگئی ہے۔ تاہم پارٹی کے باغی رہنما نے ان تمام پیشکشوں کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔ اور اس وقت ان کی ساری توجہ پارٹی کے نظریاتی رہنمائوں اور کارکنوں کو ایک پلیٹ فارم پر لاکر الیکشن سے پہلے ’’اوریجنل پی ٹی آئی‘‘ کو میدان میں لانے پر مرکوز ہے۔
اس سارے معاملے سے آگاہ ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے اپنی سیاسی عمارت شفاف مالی معاملات کی ساکھ پر قائم کی تھی۔ لیکن جوں جوں پی ٹی آئی کے مالی معاملات میں سنگین بے قاعدگیوں کے راز افشا ہوتے جارہے ہیں۔ ایمانداری کی ساکھ پر قائم عمران خان کی سیاسی عمارت بھی دھیرے دھیرے گر رہی ہے۔ اس کی تازہ مثال حال ہی میں سامنے آنے والا پی ٹی آئی ملازمین کے خفیہ اکائونٹس کا قصہ ہے۔ دستاویزات سے ثابت ہوگیا ہے کہ مرکزی رہنمائوں نے پارٹی سیکریٹریٹ ملازمین کو اپنے خفیہ اکائونٹس میں پارٹی فنڈز جمع کرنے کی اجازت دی تھی۔
بعد ازاں پی ٹی آئی کے سیکریٹری فنانس سراج احمد نے پارٹی کے مالیاتی بورڈ کی جانب سے ان چاروں ملازمین کو فنڈز اکٹھا کرنے سے متعلق اجازت کی تصدیق کر دی تھی۔ اگرچہ پی ٹی آئی نے اپنے ہی سیکریٹری فنانس کے بیان کو رد کر دیا۔ تاہم دو روز قبل الیکشن کمیشن کی اسکروٹنی کمیٹی کے اجلاس کے دوران آخر کار ان چاروں اکائونٹس کو تسلیم کرلیا گیا۔ اس سے بھی سنگین بات یہ سامنے آئی کہ ان اکائونٹس میں آنے والی رقوم کا کوئی ریکارڈ الیکشن کمیشن میں جمع نہیں کرایا گیا۔
ذرائع کے بقول مالی معاملات میں بے قاعدگیوں کے ان سنگین انکشافات کے تناظر میں فارن فنڈنگ کیس سست روی سے ہی سہی لیکن آخر کار اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ جس نے عمران خان کی سیاسی عمارت کو کھوکھلا کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس صورتحال میں قریبی لوگوں نے پی ٹی آئی چیئرمین کو مشورہ دیا ہے کہ سیاسی عمارت کے مکمل انہدام سے قبل کوئی راستہ نکالا جائے۔ اس راستے کو نکالنے کے لئے ہی اب ہاتھ پیر مارے جا رہے ہیں۔ جس کے تحت فارن فنڈنگ کیس کے پٹیشنر اکبر ایس بابر کو پس پردہ پیشکشوں کا سلسلہ تیز ہو چکا ہے۔ تاہم باغی رہنما کے غیر لچکدار رویے اور کسی بھی قسم کی سودے بازی سے دو ٹوک انکار کے سبب یہ کوششیں مسلسل ناکامی کا شکار ہیں۔
واضح رہے کہ تین روز قبل اکبر ایس بابر نے انکشاف کیا تھا کہ وزیراعظم عمران خان کے ایک معتمد خاص نے ان سے رابطہ کرکے پیشکش کی ہے کہ اگر وہ فارن فنڈنگ کیس سے دستبردار ہوجائیں تو اس کے بدلے میں انہیں ان کی پسند کا کوئی بھی حکومتی یا پارٹی عہدہ دے دیا جائے گا۔ یا پھر انہیں چیئرمین سینیٹ بھی بنایا جا سکتا ہے۔ لیکن اکبر ایس بابر کے بقول انہوں نے یہ پیشکش سختی سے مسترد کردی۔
اس سارے معاملے سے آگاہ ذرائع نے بتایا کہ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے اپنے معتمد خاص کے ذریعے قریباً ایک ہفتہ قبل اکبر ایس بابر کو کی جانے والی یہ پہلی پیشکش نہیں تھی۔ اس ضمن میں سب سے پہلی پیشکش قریباً تین برس قبل کی گئی تھی۔ تاہم گزشتہ ایک ماہ کے دوران اس نوعیت کی کم از کم تین پیشکشیں کی جاچکی ہیں۔
ذرائع نے ایک ہفتے قبل کی جانے والی پیشکش کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے بتایا کہ یہ آفر وزیراعظم عمران خان کے ایک ایسے قریبی عزیز کی جانب سے کی گئی تھی۔ جو اس وقت سیاست میں پوری طرح سرگرم ہیں۔ اس قریبی عزیز کی جانب سے فون کرکے اکبر ایس بابر کو کہا گیا کہ کوئی درمیان کا راستہ ڈھونڈا جائے۔ اوراگر وہ چاہیں تو عمران خان خود چل کر ان سے ملاقات کے لئے آسکتے ہیں۔ جس پر اکبر ایس بابر نے کہا کہ یہ بات اب بہت آگے چلی گئی ہے۔ یہ ان کی ذات کا مسئلہ نہیں۔ جس کے لئے انہوں نے اتنی طویل جدوجہد کی ہے۔ ایک ہی آپشن ہے کہ پارٹی کے اندر احتساب کا عمل شروع کیا جائے۔
فارن فنڈنگ کیس میں ملوث کرداروں کو احتساب کے کٹہرے میں لایا جائے چونکہ وزیراعظم عمران خان بھی اس معاملے میں ملوث رہے ہیں۔ لہٰذا انہیں بھی قربانی دینی ہوگی۔ پھر یہ کہ ان تمام اجرتی سیاستدانوں کو فارغ کیا جائے، جو پارٹی پر قبضہ کئے بیٹھے ہیں۔ اس عمل سے چاہے پارٹی کو شروع میں نقصان ہی کیوں نہ ہو۔ اگر یہ راستہ اختیار کیا جاتا ہے تو پھر کوئی مسئلہ نہیں۔ تاہم ذرائع کے بقول اس قدر کڑی شرائط سن کر وزیراعظم کے قریبی عزیز جب سمجھ گئے کہ اس پرعمل کرنا عمران خان کے لیے ممکن نہیں تو پھرانہوں نے دوسرا حربہ آزمانے کی کوشش کرتے ہوئے فارن فنڈنگ کیس سے دستبرداری کے عوض پارٹی عہدہ یا چیئرمین سینیٹ بنانے کی پیشکش کی۔ اس پر اکبر ایس بابر برہم ہوگئے اورانہوں نے کہا ’’اس روز مجھے اللہ تعالیٰ اٹھالے، جس دن میں اس قسم کی آفر قبول کروں۔ میری رگوں میں حرام کا خون نہیں۔ نہ ہی اس قسم کے عہدے حاصل کرنے کے لئے میں نے یہ کام کیا ہے‘‘۔ جس پر وزیراعظم کے قریبی عزیز نے صفائیاں پیش کرنی شروع کردیں کہ ان کا یہ مقصد نہیں تھا۔
بعد ازاں اکبر ایس بابر نے کال منقطع کرکے وزیراعظم کے قریبی عزیز کا فون نمبر بلاک کر دیا۔ ذرائع نے بتایا کہ اس آفر کے علاوہ مشترکہ دوستوں اور دیگر قریبی ذرائع سے بھی اکبر ایس بابر کو مزید پیشکشیں کی گئیں۔ بعض ہمدردوں نے یہاں تک کہا کہ دو بھائیوں کی لڑائی کا معاملہ ہے۔ اس لئے اب یہ قصہ ختم ہوجانا چاہئے۔ تاہم باغی رہنما کے دو ٹوک انکار کے نتیجے میں بیل منڈھے نہیں چڑھ سکی۔
ذرائع نے بتایا کہ اس وقت اکبر ایس بابر کی تمام تر توجہ پارٹی کے نظریاتی رہنمائوں اور کارکنوں کو ایک پلیٹ فارم پر لاکر الیکشن سے پہلے ’’اوریجنل پی ٹی آئی‘‘ کو میدان میں لانے پر مرکوز ہے۔ ان کوششوں کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
چند روز قبل صوابی میں ہونے والا مشاورتی اجلاس اسی سلسلے کی کڑی تھا۔ جس میں ضلع صوابی میں پی ٹی آئی کے نظریاتی رہنمائوں اور کارکنوں نے اکبر ایس بابر کے اعزازمیں استقبالیہ دیا تھا۔ ذرائع نے بتایا کہ آنے والے دنوں میں ملک بھر کے اضلاع میں اسی نوعیت کے مزید مشاورتی اجلاس ترتیب دیئے جارہے ہیں۔ جس کے تحت اگلا مشاورتی اجلاس لاہور میں ہوگا۔ بعد ازاں اکبر ایس بابر کراچی بھی آئیں گے۔ جہاں پی ٹی آئی کی موجودہ قیادت سے مایوس نظریاتی رہنمائوں اور کارکنوں کی تعداد دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔ تاہم ان مشاورتی اجلاسوں کی حتمی تاریخوں کا تعین ابھی نہیں کیا گیا ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ ابتدائی طور پر ضلعی اور تحصیل سطح پر اجلاس کرکے نظریاتی رہنمائوں اور کارکنوں کو متحرک کیا جائے گا۔ بعد ازاں اسلام آباد میں ایک بڑا کنونشن بلانے کا پلان ترتیب دیا گیا ہے۔ ان تیاریوں کا مقصد آئندہ عام انتخابات میں نظریاتی رہنمائوں اور ورکروں پر مشتمل پی ٹی آئی کو میدان میں اتارنا ہے۔ ان مجوزہ اجلاسوں کا شیڈول ترتیب دینے والے ایک ذریعے کے بقول چونکہ بہت اچھا رسپانس مل رہا ہے۔ لہٰذا اس عمل میں تیزی لانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔