حضرت ربیعؒ کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ حضرت اویس قرنیؒ کے پاس ملاقات کی غرض سے حاضر ہوا تو وہ صبح کی نماز پڑھ کر تسبیح میں مشغول ہوگئے۔ مجھے خیال ہوا کہ اس وقت ان کا حرج ہوگا، میں فراغت کے انتظار میں بیٹھ گیا۔ وہ اسی حال میں بیٹھے پڑھتے رہے، یہاں تک کہ ظہرکا وقت ہوگیا۔ وہ ظہر کی نماز پڑھنے کھڑے ہوگئے اور عصر تک نماز پڑھتے رہے پھر عصر کی نماز سے فارغ ہوئے اوراسی جگہ مغرب تک بیٹھے رہے پھر مغرب کی نماز پڑھی اور پھر وہیں پر عشا کی نماز پڑھی۔ پھر صبح تک وہیں جمے رہے۔ دوسرے دن صبح کی نماز کے بعد بیٹھے تھے کہ اسی حال میں کچھ غنودگی سی ہوگئی۔ چونک کر کہنے لگے۔
’’خدایا ایسی آنکھ سے تجھ سے پناہ مانگتا ہوں جو بار بار سوتی ہو اور ایسے پیٹ سے پناہ مانگتا ہوں جو بھرتا ہی نہ ہو۔‘‘
میں یہ سب حالت دیکھ کر وہاں سے یہ کہہ کر واپس چلا آیا کہ مجھے تو عبرت کیلئے یہی کافی ہے، جو میں نے دیکھ لیا۔
ایک بزرگ کہتے ہیں کہ مجھے ایک رات ایسی گہری نیند آئی کہ آنکھ نہ کھلی۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک ایسی نہایت حسین و جمیل لڑکی ہے کہ اس جیسی میں نے عمر بھر نہیں دیکھی تھی۔ اس میں ایسی تیز خوشبو مہک رہی تھی کہ میں نے ویسی خوشبو کبھی نہیں سونگھی تھی۔ اس نے مجھے ایک کاغذ کا پرچہ دیا، جس میں تین شعر لکھے تھے۔ ان کا مطلب یہ تھا۔
’’تو نیند کی لذت میں مشغول ہو کر جنت کے بالا خانوں سے غافل ہوگیا جہاں ہمیشہ تجھے رہنا ہے اور موت بھی وہاں نہ آئے گی۔ اپنی نیند سے اٹھ، سونے سے تہجد میں قرآن پڑھنا بہت بہتر ہے۔‘‘
کہتے ہیں اس کے بعد سے جب مجھے نیند آتی ہے تو یہ شعر یاد آجاتے ہیں تو نیند بالکل اڑجاتی ہے۔ (نماز مشکلات کا حل)