کراچی میں سی آئی اے سینٹر صدر کی تاریخی عمارت سانپوں کا مسکن تو نہیں البتہ دہشت کی علامت اور آسیب زدہ ہونے کے حوالے سے کافی مشہور ہے جس سے درجنوں پر تشدد سیاسی واقعات منسلک ہیں۔
کراچی کے علاقے صدر میں کلارک اسٹریٹ پر سینٹ پیٹرک کیتھیڈرل چرچ کے عین سامنے واقع سی آئی اے سینٹر کراچی کی عمارت قیام پاکستان سے قبل سال 1911 کی تعمیر شدہ ہے جہاں اب کراچی پولیس کا اسپیشل انوسٹی گیشن یونٹ یعنی ایس آئی یو قائم ہے۔
اس عمارت کی اندرونی دیواریں کچی جبکہ بیرونی دیواریں پتھر سے تعمیر شدہ ہیں، اس دو منزلہ عمارت کے بڑے کمروں سے اسٹور یا رسوئی نما چھوٹے چھوٹے کمرے منسلک ہیں جنہیں عرف عام میں ’کھولیاں‘ کہا جاتا ہے اور مختلف ادوار میں گرفتار کیے گئے سیاسی کارکنوں کو اِنہیں کھولیوں میں قید رکھنے اور ریاستی تشدد کا نشانہ بنانے کے واقعات ریکارڈ پر ہیں، اسی وجہ سے کراچی بھر میں اس عمارت یعنی سی آئی اے سینٹر کی دہشت تھی۔
اس پرانی اور تاریخی عمارت میں جنات کے مسکن ہونے یا آسیب کا سایہ ہونے کی کہانی بھی مختلف پولیس افسران کی زبانی سامنے آتی رہی ہیں۔
مارشل لاء کے ادوار یا ریاستی تشدد کے دنوں میں سی آئی اے سینٹر صدر کی عمارت سے پر تشدد سیاسی واقعات جڑے ہوئے ہیں، 1992 کے بعد کراچی آپریشن میں ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن کے دوران گرفتار نامی گرامی کارکنوں کو اسی عمارت میں قید رکھا جاتا تھا۔ کئی سیاسی کارکنوں کی مبینہ ایکسٹرا جوڈیشل کِلنگ کے واقعات بھی یہاں ریکارڈ پر ہے۔
سندھ کے سابق وزیر اعلیٰ جام صادق علی کے دور حکومت میں پاکستان پیپلز پارٹی کی اس وقت کی قیادت اور کارکنوں پر تشدد کے درجنوں واقعات اسی سی آئی اے سینٹر میں ہوئے، پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما شہلا رضا اور راحیلہ ٹوانہ کو قتل کے مقدمے میں گرفتار کر کے اسی سی آئی اے سینٹر میں بے پناہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا اور ان سے زیادتی کا واقعہ بھی اسی عمارت سے منسلک ہے۔
دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ ان دنوں مرکز میں آئی جے آئی کے اتحاد سے پاکستان مسلم لیگ کے میاں نواز شریف کی حکومت تھی اور ان دنوں گلشن حدید کے رہائشی علیم عادل شیخ اور حلیم عادل شیخ پاکستان مسلم لیگ کے سرگرم کارکن تھے اور اب شاید پہیہ الٹا چلتا دکھائی دیتا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما حلیم عادل شیخ کو اسی پاکستان پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت میں گرفتاری کے بعد اسی سی آئی اے سینٹر کی عمارت میں رکھا گیا ہے جہاں ان پر اس عمارت سے منسلک واقعات جیسا تشدد تو روا نہیں رکھا جارہا البتہ ان کے کمرے میں سانپ نکلنے، نکالنے یا چھوڑے جانے کے واقعہ نے پولیس افسران کو بھی حیرت زدہ کر دیا ہے۔
کئی دہائیوں کے مختلف دور ادوار میں اس سی آئی اے سینٹر خدمات سر انجام دینے والے موجودہ اور سابق پولیس افسران کے مطابق ماضی قریب میں کبھی سی آئی اے سینٹر سے سانپ نکلنے کا کوئی واقعہ دیکھا یا سنا نہیں۔
ایک پولیس افسر نے بتایا کہ گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران سی آئی اے سینٹر میں رات کے وقت سایہ چلنے، آسیب کے واقعات یا جنات کی نشانیاں دیکھی گئی ہیں۔
بعض پولیس افسران کے مطابق سانپ ان کے کمرے میں نہیں بلکہ دوسرے کمرے کے باتھ روم میں نکلا جو ممکنہ طور پر چھت کے سوراخ سے اندر آیا۔
پولیس کے مطابق حلیم عادل شیخ چونکہ ڈرامائی صورتحال پیدا کرنے کے حوالے سے مشہور ہیں لہٰذا اس واقعے کی چھان بین ہو تو پتہ چلے گا کہ سانپ کہاں سے آیا۔
دوسری جانب پی ٹی آئی کے رہنما فیصل واوڈا کا کہنا ہے کہ شکر ہے حلیم عادل شیخ کے کمرے سے سانپ نکلا ہے اژھا نہیں نکلا۔
ذرائع کے مطابق فیصل واوڈا کے بیان نے پولیس کو اور بھی تشویش میں مبتلا کردیا ہے کہ کہیں آئندہ حلیم عادل شیخ کے کمرے سے اژدھا ہی نہ نکل آئے۔