اگر اپوزیشن نہیں آنا چاہتی تو خود پارلیمنٹ ہاؤس جانے کیلیے تیار ہوں، صدر مملکت
اگر اپوزیشن نہیں آنا چاہتی تو خود پارلیمنٹ ہاؤس جانے کیلیے تیار ہوں، صدر مملکت

الیکشن آرڈیننس‘ سینیٹ میں اپوزیشن کا صدر عارف علوی کے مواخذے کا مطالبہ

سینیٹ اجلاس کے دوران سینیٹ انتخابات کے طریقہ کار میں تبدیلی سے متعلق صدارتی آرڈیننس پر بحث ہوئی جس میں حکومتی اور اپوزیشن کی جان سے ایک دوسرے پر الزامات لگائے گئے جب کہ صدر مملکت عارف علوی کے مواخذے کی بھی آوزازیں اٹھنے لگیں۔
چیئرمین صادق سنجرانی کی سربراہی میں سینیٹ کا اجلاس ہوا ، جس میں سینیٹ انتخابات کے حوالے سے جاری آرڈینسن پر بحث کی گئی۔
وزیر اعظم کے معاون خصوصی بابر اعوان نے کہا کہ آئین میں لکھا گیا ہے حالات کے تناظر میں آرڈیننس جاری کیا جا سکتا ہے، آرڈیننس جاری کرنے والے عارف علوی پہلے صدر نہیں؟ آرڈیننس کی ایک تاریخ ہے، دور آمریت میں جو آرڈیننس جاری ہوئے ان کو بھی آئین تحفظ دیا گیا، حکومت نے قومی ضرورت کے مطابق تمام آئینی تقاضوں پر آرڈیننس جاری کیا، سپریم کورٹ ریفرنس پر جواب دینے کی پابند ہے،سپریم کورٹ کا فیصلہ صدارتی ریفرنس کے خلاف آیا تو یہ ختم ہو جائے گا، اگر یہ فیصلہ آرڈیننس کے حق میں آیا تو یہ رہے گا لیکن جو فیصلہ آنا ہے اس پر پہلے سے اندازے لگائے جا رہے ہیں۔
بابر اعوان نے کہا کہ وہ کیا ہے جو سپریم کورٹ میں چیلنج ہوا ہے یہی آرڈیننس تو ہے ، وہ کوئی اجنبی نہیں ہے جس نے آرڈینس جاری کیا ہے ،یہ آرڈیننس دن کی روشنی میں صدر پاکستان نے جاری کیا ، جس طرح صدر نے آئینی تقاضوں کو پورا کیا کابینہ نے بھی کیا، 100 بار بھی صدر کے خلاف مواخذے کے لیے تحریک لائیں ہم سامنا کریں گے اور اسے ناکام کریں گے،امریکہ میں یہ تحریک دو بار آئی اور ناکام ہوئی۔
سسی پلیجو نے کہا کہ پی ٹی آئی شروع سے ہی اصل معاملوں پر بھاگتی آئی ہے، یہ بات بالکل درست ہے کہ یہ حکومت آرڈیننس کی فیکٹری ہے، صدر کے مواخذے کا مطالبہ درست فیصلہ ہے، ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہے کہ صدر کے خلاف مواخذے کی بات کی گئی ہو۔
پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی نے کہ آرڈیننس عارضی قانون سازی ہے ، اس کی مدت 120 دن ہے، صدارتی آرڈیننس کے اجرا کے بعد آج سینیٹ کا پہلا اجلاس ہے، صدارتی آرڈیننس کا اجرا بدنیتی پر مبنی ہے، صدر نے آئینی خلاف ورزی کرتے ہوئے صدارتی آرڈیننس جاری کیا، حکومت نے سینیٹ انتخابات کا مذاق بنا دیا ہے۔
بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے سینیٹر جہانزیب جمالدینی نے کہا کہ آئین میں ترمیم کا حق صرف پارلیمان کے پاس ہے، ہم اس آرڈیننس کو مسترد کرتے ہیں، ہم اس طرح کے اقدامات کی کسی صورت حمایت نہیں کریں گے، حکومت کی نیت ٹھیک ہے تو بل لے کر ایوان میں آئے، حقیقت یہ ہے کہ آپ کے اپنے لوگ آپ کو ووٹ نہیں دے رہے، بس آپ کے لئے ایک طریقہ رہپ ہے کہ بندوق کے زور پر ووٹ لے۔
اس موقع پر وفاقی وزیراطلاعات شبلی فراز نے کہا کہ ملک کو سب سے زیادہ نقصان کرپشن نے پہنچایا ہے، جن ملکوں میں کرپشن ہے وہ سب سے پیچھے ہیں، جب تک کرپشن کاخاتمہ نہیں کیا جائے گا، ملک ترقی نہیں کرسکتا، کرپشن کی وجہ سے ادارے مفلوج ہوئے، اداروں میں میرٹ پر توجہ نہیں دی گئی یہ درست ہے سینیٹ کے الیکشن میں خریدوفروخت ہوتی ہے، ماضی میں سینیٹ الیکشن میں پیسے کا لین دین، ہارس ٹریڈنگ لازم و ملزوم بن گئی تھی ، کرپشن ختم نہ کرکے پارلیمنٹ اپنی حیثیت خود کم کر رہی ہے، ہماری قیادت نے جہاد شروع کیا کہ ملک کو کرپشن سے پاک کیا جائے لیکن یہ لوگ سیاست میں دولت اور دھونس کو لائےہیں، پیسے کوخدا نہ بنائیں میرٹ کو اپنائیں، ہماری قیادت نے جہاد شروع کیا کہ ملک کو کرپشن سے پاک کیا جائے، ایوان نے اس پر بات ہی نہیں کی کہ ہارس ٹریڈنگ کو کیسے ختم کیا جائے۔
جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ اس آرڈیننس کے اجراء پر صدر کے مواخذے کی بات درست ہے، ماضی میں بھی آرڈیننس جاری ہوتے رہے ہیں لیکن یہ حکومت تو انقلابی حکومت کے نام پہ بنی تھی، اگر اس طرح آرڈیننس ہی جاری ہونا ہے تو پارلیمنٹ کو تالا لگا دو، اگر حکومت کی نیت ٹھیک ہے تو جائز طریقے اپنائے۔