حضرت ابو طلحہؓ ایک روز اپنے باغ میں نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک پرندہ اڑا اور چونکہ باغ گنجان تھا، اس لیے اس کو جلدی سے باہر جانے کا راستہ نہ ملا، کبھی ادھر کبھی ادھر اڑتا رہا اور باہر نکلنے کا راستہ ڈھونڈتا رہا۔ ان کی نگاہ اس پر پڑی اور اس منظر کی وجہ سے ادھر خیال لگ گیا اور نگاہ اس پرندے کے ساتھ پھرتی رہی۔ دفعتاً نماز کا خیال آیا تو سہو ہوگیا کہ کون سی رکعت ہے۔ نہایت قلق ہوا کہ اس باغ کی وجہ سے یہ مصیبت پیش آئی کہ نماز میں بھول ہوئی۔ فوراً نبی کریمؐ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور پورا قصہ عرض کر کے درخواست کی کہ اس باغ کی وجہ سے یہ مصیبت پیش آئی، اس لیے میں اس کو خدا کے راستہ میں دیتا ہوں۔ آپؐ جہاں دل چاہے اس کو صرف فرما دیں۔
اندازہ کیجئے ان حضرات کی نمازوں کا اور رب تعالیٰ کے خوف کا کہ نماز میں محض ایک مرتبہ خیال ہی آیا پورا باغ ہی خدا کی راہ میں وقف کردیا۔
عمر بن عبدالعزیز ؒ کی خلافت
دجلہ کے کنارے بکریوں کے ایک ریوڑ پر بھیڑیوں نے حملہ کر دیا اور چند بکریاں مار ڈالیں، ایک آدمی نے سنا تو اس نے سرد آہ بھری اور کہا، افسوس آج خلیفہ چل بسے، اس وقت اموی خلیفہ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کا دورِ خلافت تھا، کسی نے اس سے پوچھا کہ آپ نے یہ کیوں کہا کہ آج خلیفہ چل بسے؟ اس نے جواب دیا جب سے حضرت عمر بن عبدالعزیز امیر المومنین بنے ہیں، میں نے اس سرزمین پر ظلم ہوتے نہیں دیکھا ہے، آج بھیڑیوں نے بکریوں پر حملہ کر دیا ہے تو میرا دل کہتا ہے کہ آج خلیفہ دنیا میں نہیں رہے۔ بعد میں لوگوں کو معلوم ہوا کہ امیر المومنین حضرت عمر بن عبدالعزیز اسی دن انتقال کر گئے تھے۔