حضرت ذوالنون مصریؒ بڑے درجے کے اولیائے کرام میں سے ہیں، ان کے بارے میں روایت ہے کہ ایک مرتبہ بارش نہیں ہوئی اور کافی وقت گزر گیا، لوگ ان کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ کھیتوں کو سیراب کرنے کے لیے پانی نہیں ہے، آپ رب تعالیٰ سے دعا کردیں تاکہ وہ باران رحمت نازل فرمائے۔
انہوں نے فرمایا کہ میں دعا تو کر لوں گا، لیکن ایک بات سن لو، وہ یہ کہ قرآن کریم میں ہے کہ جو کچھ تمہیں دنیا میں کوئی مصیبت یا پریشانی آتی ہے، وہ لوگوں کی بد اعمالیوں اور گناہوں کی وجہ سے آتی ہے۔
لہٰذا بارش اگر نہیں ہو رہی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ہم بد اعمالیوں میں مبتلا ہیں اور ان بد اعمالیوں کی وجہ سے حق تعالیٰ نے ہم سے بارش کو روک دیا ہے، اس لیے سب سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ ہم میں سے کونسا شخص سب سے زیادہ بد اعمالی میں مبتلا ہے اور جب میں اپنا جائزہ لیتا ہوں تو یہ نظر آتا ہے کہ پوری بستی میں مجھ (ذوالنون مصری) سے زیادہ کوئی گناہ گار آدمی نہیں ، اس لیے میں اس بستی سے چلا جاتا ہوں۔ اتنے بڑے بزرگ اور اتنی استغنا کا مظاہرہ، اس سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ ہم کس قطار میں ہیں۔ (اصلاحی خطبات)۔ (کتابوں کی درسگاہ میں)