سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ قانون میں جو بھی درج ہے اس پر نیک نیتی سے عمل کرنا ہوتا ہے، قانون مکمل طور پر معصوم اور اندھا ہوتا ہے، قانون پر بدنیتی سے عمل ہو تو مسائل جنم لیتے ہیں۔
نجی ٹی وی کے مطابق سپریم کورٹ میں سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے سے متعلق صدارتی ریفرنس پرسماعت ہوئی، چیف جسٹس گلزاراحمد کی سربراہی میں لارجر بنچ نے سماعت کی،پی پی کی جانب سے رضاربانی نے سیکریٹ بیلٹ کے حق میں دلائل دیتے ہوئے کہاکہ رولزصدارتی انتخابات کیلیے کمشنرکوہدایات جاری کرنے کااختیاردیتے ہیں،شیڈول ٹوکے باوجودصدارتی انتخابات کیلیے رولزبنائیں گے،بتانے کامقصدہے کہ سینیٹ انتخابات بھی آئین کے تحت ہوتے ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ یہ رولزآئین کے تحت بنے ہیں،رولزصدارتی الیکشن کااختیاردیتے ہیں،الیکشن ایکٹ کیلئے بنے رولزکی حیثیت آئینی نہیں،رضا ربانی نے کہاکہ سوال اپرہاﺅس لوئر ہاﺅس کے الیکشن کا نہیں،آرٹیکل 226 سیکرٹ بیلٹ کی بات کرتاہے،رضاربانی نے صدارتی ریفرنس کے رولز عدالت میں پیش کردیے۔
چیف جسٹس نے کہاکہ بنیادی بات سیکرٹ بیلٹ کی ہے ،صدارتی انتخابات کے رولز آپ کے موقف کو کیسے سپورٹ کرتے ہیں ،رضاربانی نے کہاکہ سینیٹ کبھی تحلیل نہیں ہوتی ارکان ریٹائرڈ ہو جاتے ہیں ، چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ قانون میں جو بھی درج ہے اس پر نیک نیتی سے عمل کرنا ہوتا ہے، قانون مکمل طور پر معصوم اور اندھا ہوتا ہے، قانون پر بدنیتی سے عمل ہو تو مسائل جنم لیتے ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ سینیٹ الیکشن کا مکمل طریقہ کار آئین نہیں قانون میں ہے، رضا ربانی نے کہاکہ متناسب نمائندگی کا مطلب یہ نہیں کہ اسمبلی کی اکثریت سینیٹ میں بھی ملے، جہاں ووٹوں کی خریدو فروخت ہو گی قانون اپنا راستہ بنائے گا، شواہد کے بغیر سیٹوں کی تعداد میں فرق کوووٹ فروخت کرنا نہیں کہہ سکتے۔
چیف جسٹس گلزاراحمد نے کہاکہ الیکشن اتحاد کی گنجائش سیاسی جماعتوں میں ہمیشہ رہتی ہے،رضاربانی نے کہاکہ بیلٹ پیپرز کی سیکریسی متاثر نہ ہو تو الیکشن کمیشن ووٹوں کا جائزہ لے سکتا ہے، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ ایسا طریقہ بھی بتا دیں ووٹ دیکھا بھی جائے سیکریسی متاثر نہ ہو، رضاربانی نے کہاکہ رشوت لینا یا لینے پر آمادگی ظاہر کرنا ووٹ دینے کے پہلے کے مراحل ہیں، ووٹ کیلئے پیسے لینے والا ووٹنگ سے پہلے کرپشن کر چکا ہوتا ہے، کرپشن ووٹنگ سے پہلے ہوتی ہے تو اس کیلئے ووٹ دیکھنے کی ضرورت نہیں۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ اگرمعاہدہ ہو کہ آدھی رقم ووٹ ڈالنے کے بعد ملے گی تو پھرکیا ہو گا؟ ،ووٹ ڈالنا ثابت ہوگا تو ہی معلوم ہوگا رقم الیکشن کیلیے دی گئی، رضاربانی نے کہاکہ رولز صدارتی انتخابات کے لیے کمشنر کو ہدایات جاری کرنے کا اختیار دیتے ہیں، شیڈول 2 کے باوجود صدارتی انتخابات کے لیے رولز بنائیں گے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ یہ رولزکے آئین کے تحت بنے ہیں، رولز صدارتی الیکشن کا اختیار دیتے ہیں،الیکشن ایکٹ کیلئے بنے رولزکی حیثیت آئینی نہیں ہے، رضا ربانی نے کہاکہ الیکشن ایکٹ 2017 بھی آئین کی کمانڈ پر بنایا گیا ہے،جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ تمام قوانین کا جنم آئین سے ہوتا ہے،یہ حقیقت ہے صدارتی الیکشن کے لیے کوئی قانون نہیں بنایا گیا، چیئرمین سینیٹ اسپیکر اسمبلی کاالیکشن ان کے عہدے کا انتخاب ہوتا ہے۔
رضا ربانی نے کہاکہ امریکی کونسل آف اسٹیٹ میں آبادی کے لحاظ سے نشستیں مختص کی گئی ہیں، آرٹیکل 59 میں کہیں نہیں لکھا سینیٹ کا الیکشن قانون کے مطابق ہوگا، سپریم کورٹ میں اوپن بیلٹ سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔