سپریم کورٹ میں سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے کے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت میں اٹارنی جنرل نے کہا کہ بدھ کو کیس مکمل نہیں کیا گیا تو 3 مارچ کو الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) انتخابات نہیں کرواسکے گا۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ کیا ایسا کوئی نظام نہیں کہ معلوم ہوسکے کس نے کس کو ووٹ دیا؟ رشوت ووٹ سے جڑی ہے تو اس کا جائزہ کیسے نہیں لیا جاسکتا۔
سپریم کورٹ میں سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کروانے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت ہوئی۔
سماعت کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے وکیل سینیٹر رضا ربانی نے دلائل میں کہا کہ آئین ووٹ ڈالنے والے کی شناخت ظاہر کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔
انھوں نے کہا کہ جہاں ووٹوں کی خریدو فروخت ہوگی وہاں قانون اپنا راستہ بنائے گا۔
رضا ربانی کا کہنا تھا کہ کرپشن ووٹنگ سے پہلے ہوتی ہے تو اس کے لیے ووٹ دیکھنے کی ضرورت نہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ایسا طریقہ بھی بتادیں جہاں ووٹ دیکھا بھی جائے اور رازداری بھی متاثر نہ ہو، اگر معاہدہ ہو کہ آدھی رقم ووٹ ڈالنے کے بعد ملے گی تو پھر کیا ہوگا؟
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ قانون مکمل طور پر معصوم اور اندھا ہوتا ہے، اس پر بدنیتی سے عمل ہو تو مسائل جنم لیتے ہیں۔
انھوں نے استفسار کیا کہ کیا ایسا کوئی نظام نہیں کہ معلوم ہوسکے کس نے کس کو ووٹ دیا؟ رشوت ووٹ سے جڑی ہے تو اس کا جائزہ کیسے نہیں لیا جاسکتا۔
چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ ہر شخص کرپشن اور کرپٹ پریکٹس کے خلاف ہے، اس ساری مشق کو ضائع نہیں جانے دینا چاہتے۔
دورانِ سماعت اٹارنی جنرل آف پاکستان نے سماعت جلد مکمل کرنے کی استدعا کی۔
انھوں نے عدالت میں کہا کہ بدھ تک کیس مکمل نہیں کیا گیا تو 3 مارچ کو الیکشن کمیشن انتخابات نہیں کروا سکے گا۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ صدارتی ریفرنس میں سیاسی جماعتوں کے سوا کسی کے دلائل کا کوئی حق نہیں بنتا، بار کونسلز کا سیاسی معاملے سے کوئی تعلق نہیں، وہ ان کے دلائل سننے کی بھرپور مخالفت کرتے ہیں۔
سپریم کورٹ نے پیپلز پارٹی کے وکیل رضا ربانی، پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے وکیل فاروق ایچ نائیک، مسلم لیگ (ن) کے بیرسٹر ظفراللّٰہ اور بار کونسلز کو بدھ کو آدھے آدھے گھنٹے میں دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کردی۔
جے یو آئی اور جماعت اسلامی نے رضا ربانی کے دلائل سے اتفاق کرلیا۔