سینیٹ انتخابات کا الیکٹورل کالج قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیاں ہیں۔
صوبائی کوٹے سے آنے والے سینیٹرز اپنے اپنے صوبے کی اسمبلی کے ارکان کے ووٹوں سے منتخب ہوکر آتے ہیں اور اسلام آباد سے سینیٹرز کا انتخاب قومی اسمبلی کے ارکان کرتے ہیں۔
پنجاب، سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے سینیٹرز کے انتخاب کے لیے پولنگ چاروں متعقلہ صوبائی اسمبلیوں میں جبکہ اسلام آباد اور فاٹا کی نشستوں کے لیے پولنگ قومی اسمبلی میں ہوتی ہے۔
الیکشن قوانین میں طے شدہ فارمولے کے مطابق ایک نشست جیتنے کے لیے لازم قرار پانے والے ووٹوں کی تعداد کے گولڈن فگر کے لیے متعلقہ صوبائی اسمبلی کے ارکان کی کُل تعداد کو مذکورہ صوبے کے حصے میں آنے والی سینیٹ کی موجود خالی نشستوں سے تقسیم کیا جائے گا۔
گولڈن فگرحاصل نہ کرنے پرکسی بھی نشست پر انتخاب لڑنے والا امیدوار اس نشست کے تمام امیدواروں میں سب سے زیادہ ترجیحی ووٹ حاصل کرنے کی صورت میں بھی کامیاب قرار پائے گا۔
دوسری صورت میں گولڈن فگر سے زائد حاصل کیے گئے ووٹ اس سے اگلے ترجیحی امیدوار کو منتقل ہوجائیں گے اورایسے ہی یہ سلسلہ آگے بڑھتا جائے گا۔
ووٹوں کے اس انتقال کے باعث سینیٹ انتخابات کو منتقل شدہ ووٹوں کا انتخاب بھی کہا جاتا ہے۔
اگرامیدوارمقررہ گولڈن فگرسے زائد مرتبہ ایک کا ہندسہ حاصل کرتا ہے تو تمام اضافی ووٹ دوسری ترجیح حاصل کرنے والے امیدوار کو منتقل ہوجائیں گے۔ یوں یہ عمل 7 سینیٹرز کے انتخاب تک دہرایا جائے گا۔
اگر کوئی ووٹر یعنی رکن صوبائی اسمبلی 1 سے 20 تک ترجیحی ہندسہ درج کرتے ہوئے کوئی ایک ہندسہ بھول جائے یعنی 9 کے بعد 10 کی ترجیح لگانے کے بجائے کسی امیدوار کے سامنے 11 کی ترجیح لگادے تو اس کے 9 ووٹ گنے جائیں گے اور9 کے بعد 20 تک کے سارے ترجیحی ووٹ کینسل یا منسوخ شمار ہوں گے۔
اسی فارمولے کے تحت سندھ اسمبلی سے جنرل نشست پر24 ووٹ لینے والے امیدوار کو کامیاب تصور کیا جائے گا۔
خیبرپختونخوا اسمبلی سے سینیٹ کی جنرل نشستوں کے لیے 18 ووٹ اور بلوچستان اسمبلی سے 9 ووٹ حاصل کرنے ہوں گے۔
اسلام آبا کی 2 نشستوں پر ہونے والے سینیٹ انتخابات میں پوری قومی اسمبلی ووٹ دے گی۔ اسلام آباد کی جنرل اور ٹیکنوکریٹ کی نشستوں پر ہونے والے انتخابات میں بھی اکثریتی ووٹ حاصل کرنے والا امیدوار کامیاب تصور کیا جائے گا۔