سب جانتے ہیں کہ اورنگزیب عالمگیرؒ مغل بادشاہ ہیں، ان کے بہت سے واقعات آپ نے پڑھے ہوں گے، لیکن یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ان کی بادشاہت پر علم و دین کا اثرغالب تھا اور وہ متقی پرہیزگار بادشاہ تھے۔ مشہور ہے کہ ان کو بارہ ہزار احادیث سند کے ساتھ یاد تھیں اور دینی علوم پر بھی گہری نظر رکھتے تھے، دربار مغلیہ میں اکبر کے زمانے سے ہندوئوں کا اثر و رسوخ چلا آرہا تھا۔ انہوں نے عالمگیرؒ کی شخصیت کو دھندلانے کی کوشش کی ہے، مگر ناکام رہے۔ ان کی سلطنت بخارا، ہرات، پاکستان، ہندوستان اور برما تک وسیع تھی۔
مؤرخین نے ان کا ایک واقعہ لکھا ہے کہ ایک مرتبہ مشہور عالم دین ملا جیونؒ اپنے شاگرد اورنگ زیب عالمگیرؒ سے ملنے گئے۔ بادشاہ نے اپنے استاد کا بہت اعزاز و اکرام کیا اور کافی دیر ملاقات رہی۔ جب رخصت ہونے لگے تو عالمگیرؒ نے اپنے استاد کو اہتمام کے ساتھ اپنے دور کا ایک سکہ دیا، جو دوانی کہلاتا تھا۔ ملا جیونؒ اپنے شاگرد کی بہت سی خصوصیات سے واقف تھے، جانتے تھے کہ ہندوستان کا یہ بادشاہ اپنے استاد کو دوانی جیسا معمولی سکہ نہیں دے سکتے، ضرور اس میں کوئی خاص بات ہے۔
ملا جیونؒ نے اپنے گھر آکر بیوی کو وہ سکہ دیا اور کہا کہ اس سکے میں کوئی خاص برکت معلوم ہوتی ہے۔ اس کو کسی تجارت میں لگا دو۔ بیوی نے اس سے انڈے منگوا کر مرغی بٹھا دی، سب انڈوں سے صحت مند چوزے نکل آئے، وہ بڑے ہوئے، ان سے بھی انڈے آنے لگے۔ کچھ ہی عرصے میں یہ کاروبار مرغیوں سے بکریوں میں، پھر بھینسوں میں اور ہوتے ہوتے جائیداد میں بدل گیا اور ملا جیونؒ بڑے مالدار ہو گئے۔
ہمایوں کو حاسدوں نے ملا جیونؒ کے خلاف بھڑکایا اور ان پر رشوت لینے کا الزام لگایا۔ اس کا چرچا ہوا تو یہ بات اورنگ زیب عالمگیرؒ تک پہنچی۔ انہوں نے ملا جیونؒ کو بلا کر ان سے اس مال و جائیدادکا معاملہ پوچھا۔ ملا جیون نے ساری بات تفصیل سے بتا دی اور کہا کہ یہ سب آپ کی دوانی کی برکت ہے، مجھے آج تک یہ تجسس ہے کہ وہ دوانی آپ کے پاس کیسے آئی تھی؟ استاد کا حکم تھا، عالمگیرؒ رونے لگے اور کہا کہ آپ نے حکم دیا ہے تو اس دوانی کا قصہ بتا دیتا ہوں۔ انہوں نے حکم دیا کہ فلاں مہاجن کو بلا لاؤ اور اس سے کہو کہ فلاں سال کا کھاتہ لیتے آؤ۔
مہاجن جب حاضر ہوا تو بادشاہ نے اس سے سوال کیا کہ فلاں تاریخ کو تم نے کسی شخص سے کوئی کام کرایا تھا؟ اگر کرایا تھا تو اس کو تم نے کیا اجرت دی تھی؟ مہاجن نے اس تاریخ کا صفحہ پڑھ کر بتایا کہ اس رات میرے گھر کی چھت ٹپک رہی تھی، میری بیوی نے کہا کسی مزدور سے چھت پر مٹی ڈلوا دو، میں گھر سے باہر نکلا تو دیکھا کہ ایک آدمی ایک گھر کے نیچے کھڑا ہوا ہے، رات کافی گزر چکی تھی، میں نے اس سے پوچھا کہ مزدوری کرو گے؟ کہنے لگا کہ کیا کام ہے؟ میں نے اس سے چھت کی مرمت کو کہا تو وہ راضی ہو گیا، اس نے باہر سے مٹی لاکر بڑی محنت سے چھت کی مرمت کر دی، پھر اس نے کہا کہ میری مزدوری دے دو، میں نے کہا کہ کل دن میں آجانا تو تمہاری مزدوری دے دوں گا، کیونکہ میں گھر میں پیسے نہیں رکھتا ہوں، اس نے کہا جو کچھ بھی موجود ہو، مجھے ابھی دے دو، میں کل نہیں آؤں گا۔ یہ سن کر میں گھر میں گیا اور ایک دوانی لاکر اس ہاتھ پر رکھ دی اور کہا کہ باقی تم دن میں آکر لے لینا۔
بادشاہ نے یہ واقعہ سن کر اس سے کہا: اچھا، اب جاؤ۔ اس کے جانے کے بعد عالمگیرؒ نے ملا جیون کو بتایا کہ مہاجن کا وہ مزدور آپ کا یہ شاگرد (عالمگیر) تھا۔
(تذکرۂ قاریان ہند، بحوالہ قرآنی دائرۃ المعارف: ص 1155)