نجم الحسن عارف:
روہڑی کے قریب کراچی ایکسپریس کو حادثے کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔ اگلے دو دنوں تک فارنسک رپورٹ مکمل کیے جانے کا امکان ہے۔ حادثے سے متاثرہ ٹریک کو فوری مرمت کرکے بحال کر دیا گیا ہے۔ تاہم تقریباً دس سے بارہ روز تک اس ٹریک سے ٹرینیں معمول کی رفتار سے نہیں گزر سکیں گی۔
ذرائع کے مطابق حادثہ پہلے سے ڈیمیج ٹریک کی وجہ سے پیش آیا۔ روہڑی کے نزدیک ریل کا یہ ٹریک عمومی ٹریک سے کمزور تصور کیا جاتا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ تحقیقات میں اس نکتے کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ جبکہ اوور اسپیڈنگ کا نکتہ بھی ہے۔ واضح رہے کہ ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب کراچی سے لاہور جانے والی کراچی ایکسپریس کو رات تقریباً ایک بجے کے قریب اس وقت حادثہ پیش آیا۔ جب گاڑی اپنے معمول کے سفر پر روہڑی سے لاہور کی طرف رواں دواں تھی۔ یہ حادثہ شہری آبادی سے کئی کلومیٹر دور ویرانے میں پیش آیا۔ حادثے کے نتیجے میں کراچی کی رہائشی ایک خاتون جاں بحق، جبکہ پچاس کے قریب مسافر زخمی ہوئے۔ جاں بحق خاتون کی ڈیڈ باڈی کراچی روانہ کر دی گئی تھی۔ جبکہ پینتیس سے زائد زخمی مسافر بھی دوپہر تک اسپتالوں سے ڈسچارج کر دیے گئے تھے۔
اتفاق سے یہ حادثہ اسی سانگھی ریلوے اسٹیشن کے قریب پیش آیا۔ جہاں جنوری انیس سو نوّے میں دو ریلوں کے درمیان بدترین تصادم ہوا تھا۔ جس میں سینکڑوں لوگ جاں بحق اور زخمی ہوگئے تھے۔ بعدازان اس بدترین حادثہ میں ریل حکام نے تخریب کاری کا دخل حتمی رپورٹ میں ظاہر کیا تھا کہ دونون ٹرینوں کو جان بوجھ کر ایک ہی ٹریک پر لے آیا گیا تھا۔ جس سے وہ حادثے کا شکار ہوگئیں۔ تاہم کراچی ایکسپریس کے حالیہ حادثے میں ابھی تک کی اطلاعات کے مطابق کوئی تخریبی عنصر شامل نہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ کراچی ایکسپریس کے ڈرائیور عبدالستار نے گاڑی کو روہڑی سے چلانا شروع کیا تھا۔ اس سے پہلے کراچی سے روہڑی تک ایک اور ڈرائیور چلا رہا تھا۔ عبدالستار نامی ڈرائیور کو کراچی ایکسپریس کو روہڑی سے خانیوال تک پہنچنا تھا کہ روہڑی سے نکلتے ہی حادثہ ہو گیا۔ ذرائع کے مطابق روہڑی اسٹیشن سے آگے دس بارہ کلو میٹر تک ٹریک کی زمین سے اونچائی معمول سے زیادہ ہے۔ کیونکہ آگے ریل ٹریک کے نیچے سے سڑک گزرتی ہے۔ اسی دس بارہ کلومیٹر اونچے ٹریک کے درمیان میں یہ حادثہ پیش آیا۔ روہڑی سے آگے ٹریک کے اس حصے میں ریل کی رفتار عام طور پر ایک سو کلو میٹر سے ایک سو دس کلو میٹر فی گھنٹہ ہوتی ہے۔ تاہم جب ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب یہ حادثہ پیش آیا تو ریل گاڑی کی رفتار 95 سے 100 کلومیٹر فی گھنٹہ کے درمیان تھی۔ یہی رفتار اس موبائل ایپ پر ریکارڈ کی گئی، جو ریل کے ڈرائیورز کے علاوہ کئی دیگر ریل حکام نے بھی اپنے موبائل فونز میں ڈائون لوڈ کر رکھی ہے۔
ریل حادثات کی انسپکشن اور تحقیقات کرنے والی ٹیم نے جائے حادثہ پر پہنچ کر ریل انجن میں موجود اس میٹر کو قبضہ میں لے لیا ہے جو ریل کی رفتار کو مانیٹر کرتا ہے۔ اس کی حیثیت ریل کی رفتار کا اندازہ کرنے کے حوالے سے ایک طرح سے جہازوں کے بلیک باکس جیسی ہوتی ہے۔ جو تحقیقاتی ٹیموں کو تحقیقات کا رخ متعین کرنے میں مدد دیتا ہے۔ جبکہ انسپکشن ٹیم نے کراچی ایکسپریس کے ڈرائیور سے بھی فوری طور پر بیان قلمبند کرلیا ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ کراچی ایکسپریس کے ڈرائیور کو حادثے کے موقع پر اندازہ ہی نہیں ہوا کہ ریل کے ساتھ کیا ہوا ہے۔ ریل کے بعض حکام جو اپنے طور پر ریل ٹریک ایپ کی وجہ سے کراچی میں موجود ہوتے ہوئے ٹریک پر نظر رکھے ہوئے تھے۔ انہوں نے محسوس کیا کہ کراچی ایکسپریس پچانوے سے سو کلومیٹر کی رفتار پر چلتے چلتے اچانک رک گئی۔ یہ بات ان کے لیے تشویش کا باعث بنی تو ان میں سے ایک ذمہ دار نے کراچی ایکسپریس کے ڈرائیور عبدالستار کو فوری فون کیا کہ گاڑی کو کیا ہوا ہے۔ لیکن اس وقت تک ریل انجن ڈرائیور کو اندازہ نہیں تھا کہ ریل کے ساتھ کیا ہوا ہے۔ تاہم چند ہی لمحے بعد معلوم ہوگیا کہ کراچی ایکسپریس کی پچھلی سات بوگیاں بوگی سے اتر گئی ہیں۔ جن میں سے چار مکمل طور پر زمین پر الٹ گئی تھیں۔ کچھ ہی دیر بعد ایدھی سنٹر اور انتظامیہ کی ریسکیو ٹیموں کے ذریعے امدادی کارروائی شروع کردی گئی۔ شہری آبادی سے دور اور اندھیرے کی وجہ سے ریسکیو آپریشن میں ابتدائی طور پر مشکلات پیش آئیں۔
ایدھی ٹرسٹ کے ذرائع کے مطابق ریل حادثے کی اطلاع ایدھی ٹرسٹ کو رات ایک بجے کے قریب پہنچی۔ جس کے بعد فوراً ہی ایدھی کی ٹیمیں روانہ کر دی گئی تھیں۔ زیادہ تر زخمی ہونے والوں کی وجہ ان کا نیند کی حالت میں ہونا بتایا گیا ہے کہ وہ رات کی وجہ سے دورانِ سفر سو رہے تھے کہ اچانک حادثہ ہوگیا۔ ’’امت‘‘ کو ریل حکام سے معلوم ہوا ہے کہ اتوار کے دن بارہ بجے تک ریل ٹریک مرمت کر دیا گیا تھا۔ تاہم اس متاثرہ ریل ٹریک پر اگلے تین دن تک ٹرینوں کی رفتار صرف دس کلومیٹر فی گھنٹہ رکھی جائے گی۔ اس کے بعد بتدریج رفتار بیس کلومیٹر فی گھنٹہ، چالیس کلومیٹر فی گھنٹہ اور آہستہ آہستہ سو کلو میٹر فی گھنٹہ تک لائی جائے گی۔ تاہم اس میں دس سے بارہ دن تک لگ سکتے ہیں۔
’’امت‘‘ کو کراچی میں موجود ایک ذریعے نے بتایا کہ ریل کا یہ حادثہ پہلے سے ڈیمیجڈ شدہ ٹریک کی وجہ سے پیش آیا۔ اس ذریعے کا دعویٰ ہے کہ روہڑی کے نزدیک ریل کا یہ ٹریک ریل کے عمومی ٹریک سے کمزور تصور کیا جاتا ہے۔ تاہم ریل کے ایک ذمے دار نے کہا کہ ریل ٹریک کی یومیہ بنیادوں پر نگرانی کی جاتی ہے اور جہاں پرابلم ہو اسے دور کردیا جاتا ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ کسی بھی ٹریک کو نظر انداز کیا جائے اور وہ خطرناک حادثے کا سبب بن جائے۔ البتہ یہ درست ہے کہ ریل ٹریک کی مرمت والا شعبہ پی ڈبلیو آئی (پرمینٹ وے انسپیکٹر) کچھ عرصے سے افرادی قوت کی قلت کا شکار ہے۔ جیسا کہ ریلوے کے باقی شعبے بھی افرادِ کار کی مطلوب تعداد کے بغیر کام کر رہے ہیں۔