ابن جریر، ابن خزیمہ، محمد بن نصر مروزی اور محمد بن ہارون رویانی جیسے علماء نے خود کو دینی تعلیم کیلئے مختص کیا ہوا تھا۔ اس کیلئے انہیں بڑی مشکلات اور آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا، لیکن ان کے پائوں کبھی ڈگمگائے نہیں۔ کئی دفعہ نوبت فاقوں تک جا پہنچی، مگر وہ لوگ ایک عظیم مقصد کیلئے سب کچھ جھیلتے رہے۔ اسی طرح کے ایک موقع پر ان ائمہ کا سارا راشن ختم ہوگیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بھوک کی شدت بڑھنے لگی۔ باہمی مشاورت سے وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ قرعہ اندازی کی جائے۔ جس کے نام قرعہ نکلے، وہ کسی سے اپنی صورت حال کا تذکرہ کرے۔ قرعہ فال ابن خزیمہؒ کے نام نکلا۔ ابن خزیمہؒ کہنے لگے: میں کسی سے ذکر کرنے کے بجائے سب سے بڑے دربار میں التجا کروں گا، جہاں سے کوئی نامراد نہیں لوٹتا۔ انہوں نے نوافل ادا کرنے شروع کر دیے۔
اس دوران دروازے پر دستک ہوئی۔ انہوں نے دروازہ کھولا تو سامنے حاکم مصر کے نمائندے کھڑے تھے۔ وہ پوچھنے لگے۔ محمد بن نصر کون ہے؟ انہوں نے بتایا کہ یہ محمد بن نصر ہیں۔ انہوں نے ایک تھیلی نکالی، اس میں پچاس درہم تھے۔ وہ ان کے حوالے کی، پھر پوچھا: محمد بن جریر کون ہے؟ پچاس درہم ان کو بھی دیئے۔ ان لوگوں نے حیرانی سے پوچھا: امیر کو ہمارے بارے میں کیسے پتا چلا؟ حاکم مصر کے نمائندوں نے بتایا کہ گزشتہ دن وہ آرام کر رہے تھے کہ انہیں خواب میں بتایا گیا کہ فلاں جگہ پر ہمارے کچھ بندے بھوکے ہیں، ان کے کھانے کا انتظام کرو۔ انہوں نے یہ درہم بھیجے ہیں اور وہ آپ لوگوں سے حلف لینا چاہتے ہیں کہ جب یہ ختم ہو جائیں تو آپ اپنے کسی نمائندے کو ان کے پاس بھیج دیں۔ (وقفات مع سلفنا الصالح: 318)