احمد نجیب زادے:
برطانوی میڈیا نے انکشاف کیا ہے کہ گستاخانہ خاکوں کو برطانوی تعلیمی نصاب میں دو برس قبل بطور خاص رائج کیا گیا تھا۔ ان گنت برطانوی اسکولوں میں گستاخانہ خاکوں کو بطور نصابی سرگرمیوں کے دو برس سے دکھایا جارہا تھا۔ لیکن پرائمری اور سیکنڈری اسکولز کے مسلمان طلبہ نے گھروں میں اس حوالے سے شکایت کی اور والدین سے آگہی اور شعور ملنے کے بعد توہین آمیز سرگرمیوں پر مشتمل کلاسز کا بائیکاٹ شروع کردیا ہے۔
برطانوی میڈیا نے انکشاف کیا ہے کہ باٹلے گرامر اسکول کو دو روز قبل عین آخری لمحات میں بند کردیا گیا اور اس میں زیر تعلیم مسلم طلبہ کو کہا گیا کہ وہ گستاخانہ خاکوں کو کلاس میں دکھائے جانے کی بات گھروں میں نہ کریں۔ واضح رہے کہ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ برطانوی اسکول بچیوں کی عصمت کیلئے بھی غیر محفوظ اور ڈرائونا خواب بن چکے ہیں۔ روزنامہ ’’گارجین‘‘ کے مطابق اس وقت برطانوی اسکولوں اور کالجز میں زیادتی کا شکار ہزاروں لڑکیوں نے اپنے ساتھ زیادتی کے واقعات کو https://www.everyonesinvited.uk/ پر بیان کیا ہے۔
’’گارجین‘‘ کے مطابق اس ویب سائٹ پر ہفتے کی سہ پہر تک پانچ ہزار آٹھ سو لڑکیاں نے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی داستانیں بیان کر چکی تھیں۔ ادھر باٹلے گرامر اسکول کے گستاخ ٹیچر کا کہنا ہے کہ اس کو اس توہین آمیز نصاب پڑھانے پر اسکول انتظامیہ نے کہا تھا۔ یہ گستاخانہ خاکے تعلیمی نصاب میں 2019ء سے شامل کیے گئے تھے۔ واضح رہے کہ برطانیہ بھر کے اسکولوں میں توہین آمیز خاکوں کو دکھائے جانے کی پالیسی پر عمل درآمد کے حوالہ سے علم ہوا ہے کہ یہ اقدام فرانسیسی صدر ملعون ماکرون کے ساتھ بطور اظہار یکجہتی اٹھایا گیا ہے۔
اس سلسلہ میں برطانوی ایجوکیشن منسٹر برطانیہ گیون ولیم سن نے ایک بیان داغا ہے کہ وہ اسکول کے بچوں اور والدین کی جانب سے گستاخانہ خاکوں کو کلاس نائن میں دکھانے والے استاد کو موت کی دھمکیاں دینے کی مذمت کرتے ہیں۔ لیکن لندن میں احتجاج کرنے والے والدین نے منسٹر کے الزام کو رد کردیا ہے اور کہا ہے کہ ان کا احتجاج پُر امن تھا۔ اس ضمن میں سینئر حکومتی رکن پارلیمنٹ بیرونس سعیدہ وارثی کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں گستاخانہ خاکوں کو اس ملک میں’’تہذیبی جنگ‘‘ کو ہوا دینے کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔
متعلقہ اسکول کے باہر موجود ایک مسلم طالبہ کے والد کا کہنا تھا کہ ہم کسی بھی قسم کی انتہا پسندی کو پسند نہیں کرتے، اور یہ بھی ہم نہیں چاہتے کہ بچوں کو کسی بھی قسم کے گستاخانہ و نفرت انگیز نظریات پڑھائے جائیں۔ ادھر برطانوی ریڈیو پر ایک انٹرویو میں بیرونس سعیدہ وارثی کا کہنا تھا کہ انہوں نے گزشتہ اوقات میں اسکول کے بچوں اور والدین سے کئی بارگفتگو کی ہے۔ توہین آمیز خاکوں کی شکل میں جو کچھ اسکول میں دکھایا گیا، اس عمل نے مسلم بچوں اور ان کے والدین کو مضطرب کردیا ہے۔ ہر اسکول کی طرح اس ادارے کو بھی یہ بات یقینی بنانا چاہیئے کہ اس میں پڑھنے والے ہر بچے کو ایسی تعلیم دی جائے جس سے مثبت سوچ پروان چڑھے اور ایک ایسا ماحول میسر ہو جو تمام بچوں کو یکجا رکھے۔
مقامی مسلم کمیونٹی کا کہنا ہے کہ برطانوی وزارت تعلیم کی جانب سے مسلم کمیونٹی کو دھونس اور دبائو میں لینے کیلئے متعصبانہ حکمت عملی اپنائی جارہی ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ گستاخانہ خاکوں کی کلاسوں میں نمائش بند کی جائے اور انہیں اسکولوں کے نصاب میں شامل کرنے کی پالیسی کو فی الفور ختم کیا جائے ورنہ مسلم کمیونٹی اس سلسلہ میں راست اقدام اٹھائے گی۔ ’’ڈیلی میل آن لائن‘‘ نے اسکولز میں گستاخانہ خاکوں کو دکھائے جانے کے معاملہ پر ان گنت مسلم والدین سے گفتگو کی ہے اور سبھی کا موقف شائع کیا ہے اور ان کو [email protected] ای میل نمبر دیا ہے کہ جن اسکولوں میں والدین کو گستاخانہ خاکوں کے حوالہ سے شکایات ہیں تو وہ اس ای میل پر رابطہ کرکے تمام صورت حال اور تفصیلات سے آگاہ کریں۔
’’ڈیلی میل آن لائن‘‘ نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ برطانوی حکومت نے نصاب میں دو برس قبل گستاخانہ خاکے اور توہین آمیز کلمات بطور مضمون شامل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ برطانوی اسکولوں میں سب سے پہلے باٹلے گرامر اسکول لندن میں یہ گستاخانہ خاکے دکھا کر مسلمانوں کے جذبات اور غیرت ایمانی کوجانچنے کی کوشش کی گئی۔ واضح رہے کہ گستاخانہ خاکوں کو کلاس نہم میں دکھائے جانے پر احتجاج کرنے والے مسلم طلبہ و والدین نے اسکول کا گھیرائو کرلیا تھا اور سخت احتجاج کیا تھا کہ ایک مہذب ملک میں اظہار رائے کی آزادی کے نام پر مقدس ہستیوں کی توہین ناقابل برداشت ہے۔ اس سلسلہ کو بند کیا جائے اور گستاخ استاد کو فارغ کردیا جائے۔ لیکن گستاخ ٹیچر نے اپنے بیان میں یہ کہہ کر برطانوی حکومت کے گلے میں گھنٹی باندھ دی ہے کہ کلاس میں گستاخانہ خاکوں کو دکھانے کا فیصلہ اس کا انفرادی نہیں تھا بلکہ یہ نصاب اور حکومتی ہدایات کے تحت تھا۔