امت رپورٹ:
جہانگیر ترین نے اپنی ممکنہ گرفتاری کے خطرے کو بھانپتے ہوئے دھمکی دی ہے کہ اگر ان پر ہاتھ ڈالا گیا تو پھر وہ بھی اپنی خاموشی توڑ دیں گے۔ واضح رہے کہ ایف آئی اے نے جہانگیر ترین اور ان کے بیٹے علی ترین کے خلاف مالیاتی فراڈ اور منی لانڈرنگ کے مقدمات درج کئے ہیں۔ پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے جہانگیر ترین کے قریبی ذرائع نے بتایا کہ مقدمات درج ہونے کے بعد سے شوگر کنگ خاصے پریشان ہیں۔ یہ مقدمات قریباً ڈیڑھ ہفتے پہلے ہی درج کرلیے گئے تھے تاہم منظر عام پر اب آئے ہیں۔
ذرائع کے مطابق اپنے جن پرانے رابطہ کاروں کے کہنے پر جہانگیر ترین واپس آئے تھے۔ ان کی طرف سے کسی قسم کی کارروائی نہ کئے جانے کی یقین دہانی کرائی گئی تھی۔ لیکن صورتحال اچانک بدل گئی ہے۔ جہانگیر ترین لندن میں سات ماہ گزارنے کے بعد گزشتہ برس نومبر میں واپس آئے تھے۔ اور اس وقت سے خاموش بیٹھے تھے۔ کیونکہ یہ خاموشی، واپسی کی ڈیل کا حصہ تھی۔ اس خاموشی کے عوض جہانگیر ترین کے خلاف شوگر اسکینڈل تحقیقات سست کردی گئی تھیں۔
ذرائع نے بتایا کہ افہام و تفہیم کے اس عمل کے دوران وزیر دفاع پرویز خٹک اور پی ٹی آئی کے بعض دیگر اہم رہنمائوں نے جہانگیر ترین اور وزیراعظم عمران خان کے درمیان صلح کرانے کی بھرپور کوششیں کیں۔ یہ کوششیں اس حد تک کامیاب ہوگئی تھیں کہ عمران خان اور جہانگیر ترین کے درمیان واٹس ایپ پر رابطے بحال ہوگئے تھے تاہم اس ڈویلپمنٹ نے پی ٹی آئی میں موجود ترین مخالف لابی کے لوگوں کو تشویش میں ڈال دیا تھا۔ جو پہلے ہی جہانگیر ترین کی واپسی پر اپ سیٹ تھے۔ لیکن مجبور تھے کہ جہانگیر ترین بھاری بھرکم گارنٹی کے ساتھ واپس آئے تھے۔
ذرائع نے بتایا کہ اصل گڑبڑ سینیٹ الیکشن کے بعد ہوئی۔ خاص طور پر سابق وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ اور یوسف رضا گیلانی کے درمیان ہونے والے سینیٹ معرکے کے حوالے سے وزیراعظم کو باور کرایا گیا کہ عبدالحفیظ شیخ کی شکست میں جہانگیر ترین نے پس پردہ رول ادا کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے اپنے زیراثرایک سے زائد ارکان اسمبلی کو خود جہانگیر ترین نے کہا ہے کہ اس سلسلے میں وزیراعظم ہائوس سے قریب ان کے مخالفین نے عمران خان کے کان بھرے۔
وزیراعظم کو بتایا گیا کہ اسلام آباد کے سینیٹ الیکشن میں جہانگیر ترین نے اپنے عزیز یوسف رضا گیلانی کو کامیاب کرانے کے لئے اضافی ووٹ دلائے۔ ذرائع کے مطابق اگرچہ جہانگیر ترین اس سے انکاری ہیں۔ لیکن وزیراعظم کو پورا یقین ہے کہ عبدالحفیظ شیخ کی شکست میں جہانگیر ترین کا ہاتھ بھی تھا۔ اور یہ کہ اس حوالے سے انہوں نے اپنی ماتحت بعض سول ایجنسیوں کی رپورٹ سے بھی ان پٹ لیا۔ اس کے بعد جہانگیر ترین کے لئے صورتحال یکدم تبدیل ہوگئی۔ اور جہانگیر ترین کے خیال میں انہیں سبق سکھانے کے لئے مقدمات درج کرنے کی اجازت دی گئی۔
شوگر کنگ سے قریب پی ٹی آئی کے ذرائع نے بتایا کہ مقدمات درج کئے جانے کے بعد سے اپنے قریبی لوگوں کی نجی محفلوں میں نہ صرف جہانگیر ترین اپنی مخالف لابی کو سخت برا بھلا کہہ رہے ہیں۔ جس نے ان کی دانست میں وزیراعظم کے کان بھرے۔ بلکہ وہ عمران خان کو بھی سخت تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ ان ذرائع کے بقول مقدمات کے اندراج نے جہانگیر ترین کے پرانے زخم بھی ہرے کردیئے ہیں۔ اور یہ شکوہ اب دوبارہ ان کے لب پر آگیا ہے کہ عمران خان نے اپنی سیاسی نااہلی سے بچنے کے لئے ان کی قربانی دی تھی۔ اس کے نتیجے میں انہیں سپریم کورٹ کی جانب سے نااہلی کا سامنا کرنا پڑا۔ کیونکہ نواز شریف کو نااہل قرار دیئے جانے کے بعد بیلنس کے لئے عمران خان یا جہانگیر ترین میں سے کسی ایک کی نااہلی ضروری ہوگئی تھی۔
قریبی ذرائع کے مطابق کاروباری مجبوریوں میں جکڑے جہانگیر ترین اگرچہ ایک برسر اقتدار طاقتور وزیراعظم سے ٹکرانا نہیں چاہتے۔ لیکن اگر ان کی گرفتاری کا فیصلہ ہوجاتا ہے تو پھر ان کے پاس اپنی خاموشی توڑنے کے سوا دوسرا آپشن نہیں رہے گا۔ اس ممکنہ گرفتاری سے بچنے کے لئے انہوں نے اپنے ایسے مشترکہ ساتھیوں کے ذریعے، جن کی وزیراعظم ہائوس تک رسائی ہے۔ یہ پیغامات دینے شروع کردیئے ہیں کہ گرفتاری کی صورت میں وہ تمام راز منظر عام پر لے آئیں گے۔ خاص طور پر دو ہزار اٹھارہ میں پی ٹی آئی کو اقتدار میں لانے سے متعلق بہت سے اندرونی معاملات سے جہانگیر ترین آگاہ ہیں۔
ذرائع کے مطابق ترین کو زیادہ صدمہ اس بات کا ہے کہ ان کے بیٹے کو بھی مقدمات میں گھسیٹ لیا گیا ہے۔ نجی محفلوں میں وہ برملا کہہ رہے ہیں کہ ان کے لیے دوبارہ مشکلات پیدا کرنے اوران کے وزیراعظم سے بہتر ہوتے تعلقات کو خراب کرنے میں شہزاد اکبر، اعظم خان اور دیگر نے ایک بار پھر اپنا وار کیا ہے۔ تاہم جہانگیر ترین اور عمران خان کے ایک سابق مشترکہ دوست نے اس سارے معاملے کو مکافات عمل قرار دیا ہے۔
اس سابق دوست کے بقول نواز شریف کے خلاف پاناما اور منی لانڈرنگ کیس میں جہانگیر ترین نے نہایت متحرک رول ادا کیا تھا۔ آج اپنی ہی حکومت کے دور میں ان کے خلاف منی لانڈرنگ جیسے سنگین الزام میں مقدمات درج کئے جاچکے ہیں۔ حالانکہ اصل معاملہ شوگر بحران کی تحقیقات سے شروع ہوا تھا۔
شوگر کنگ جہانگیر ترین اور ان کے بیٹے علی ترین کے خلاف مالیاتی فراڈ اور منی لانڈرنگ کے مقدمات تو درج کرلیے گئے ہیں۔ تاہم اعلیٰ سطح پر اس سلسلے میں گرفتاریوں کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔
اسلام آباد میں موجود ذرائع کے مطابق اس سارے معاملے کو وزیراعظم عمران خان براہ راست خود دیکھ رہے ہیں اور اپنے سابق قابل اعتماد ساتھی جہانگیر ترین کے خلاف ایف آئی آر کاٹنے کا فیصلہ بھی ان کی اجازت اور رضا مندی سے کیا گیا۔ ذرائع کے بقول درج شدہ مقدمات میں سب سے اہم معاملہ منی لانڈرنگ کا ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ جہانگیر ترین نے لندن میں پراپرٹی خریدنے کے لیے پاکستان سے ساڑھے سات ملین ڈالر کی منی لانڈرنگ کی۔
ذرائع نے بتایا کہ جہانگیر ترین اور ان کے بیٹے علی ترین کے خلاف مقدمات درج کرنے سے پہلے وزیراعظم ہائوس میں طویل مشاورت ہوتی رہی۔ وزیراعظم عمران خان کی اپنے قریبی ساتھیوں کے ساتھ ہونے والی مشاورت کے دوران لگ بھگ ایک ہفتے تک اس بات کا فیصلہ نہیں کیا جاسکا تھا کہ یہ مقدمات درج کئے جائیں یا نہیں۔ بالآخر احتساب کے معاملات دیکھنے والے وزیراعظم کے معاونین انہیں قائل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ یوں جہانگیر ترین اوران کے بیٹے کے خلاف ایف آئی آر درج کرلی گئی۔ اب جہانگیر ترین اور ان کے بیٹے کو گرفتار کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ بھی وزیراعظم نے کرنا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ معاملے کو شاید مقدمات اور تحقیقات تک محدود رکھا جائے۔ تاکہ اس صورتحال سے گھبراکر جہانگیر ترین دوبارہ بیرون ملک چلے جائیں۔ کیونکہ ایک تو گرفتاری کی صورت میں جہانگیر ترین کی جانب سے راز منظر عام پر لانے کا خدشہ ہے اور دوسرا یہ کہ جن رابطہ کاروں کی یقین دہانی پر شوگر کنگ واپس آئے تھے۔ وہ جہانگیر ترین کی گرفتاری میں حائل ہو سکتے ہیں۔ لیکن خود جہانگیر ترین یہ خطرہ شدت سے محسوس کر رہے ہیں کہ اپریل کے مہینے میں انہیں گرفتار کیا جاسکتا ہے۔